• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اس زمانے کی بات ہے جب آج کے کچھ غدار سینہ تان کر وطن عزیز کے حکمران بنے بیٹھے تھے اور آج کل ان غداروں کی سرکوبی کرنے والے کئی فرض شناس اور محب وطن عناصر مفرورتھے۔ انہی میں سے ایک محب وطن مفرور ٹریک سوٹ اور جوگرز پہن کر اسلام آباد کے شالیمار گرائونڈ میں آتا اور سرگوشیوں میں اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا کرتا۔ یہ مفرور محب وطن جب بھی ملتا گمبھیر لہجے میں اپنے کسی نہ کسی ساتھی کے قتل کی اطلاع دیتا اور درخواست کرتا کہ خدارا ہمارے لئے کچھ کیجئے ورنہ ہم سب مارے جائیں گے۔ آپ زیادہ پریشان نہ ہوں کیونکہ میں جس مفرور شخص کو ملا کرتا تھا یہ کوئی چور یا ڈاکو نہیں بلکہ آج کل کراچی میں ایس ایس پی کے عہدے پر تعینات پولیس افسررائو انوار صاحب تھے۔ رائو انوار سے میری پہلی ملاقات 1995میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے کراچی میں کرائی تھی۔ رائو انوار کراچی پولیس کے ان افسران میں نمایاں تھے جنہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں کراچی میں ایک بڑا آپریشن کیا لیکن بینظیر حکومت کو اس آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ دینے کی بجائے 1996 میں ان کی اپنی ہی پارٹی کے صدر فاروق لغاری کے ذریعہ برطرف کرادیا گیا اور برطرفی کی وجوہات میں کراچی میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کو بھی شامل کیا گیا۔ رائو انوار پر ایسی ہی کچھ ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام تھا اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت ان سے انتقام لینے کے درپے تھی۔ 1999میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ایم کیو ایم غدار سے محب وطن بن چکی تھی اور حکومت میں بھی شامل ہوگئی تھی۔ ایم کیو ایم کے حکومت میں شامل ہونے کے بعد کراچی میں ایسے کئی پولیس افسران کو قتل کیا جا نے لگا جنہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ یہ پولیس افسر جانیں بچاتے پھر رہے تھے اور حکومت نے آنکھیں بند کررکھی تھیں۔ انہی دنوں شعیب سڈل بلوچستان کے آئی جی بنے تو رائو انوار کو کوئٹہ لے گئے لیکن رائو انوار نے اپنی فیملی کو اسلام آباد میں چھپا رکھا تھا۔ رائو انوار نے کئی مرتبہ مجھے ایسی دستاویزات دیں جن سے ایم کیو ایم کے کچھ رہنمائوں کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا پتہ چلتا تھا۔ رائو انوار چاہتے تھے کہ میں یہ دستاویزات کسی نہ کسی طرح اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف تک پہنچا دوں۔ اس ناچیز نے کئی مرتبہ رائو انوار کو جنوری 1999میں مشرف صاحب کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا قصہ سنایا جس میں مشرف نے الطاف حسین کو غدار قرار دیا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی مصلحتوں کے باعث الطاف حسین کو گلے لگالیا۔ رائو انوار میری بات سن کر خاموش ہوجاتے۔
پھر ایک دن الطاف حسین نے نئی دہلی میں تقریر کرتے ہوئے تقسیم ہند کو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا بلنڈر قرار دے دیا۔ میں نے تقریر کا یہ حصہ جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں نشر کیا اور کچھ سیاستدانوں کو اظہار خیال کی دعوت دی جن میں عمران خان اور وسیم اختر بھی شامل تھے۔ اس کے بعد جو میرے ساتھ ہوا وہ پھر کبھی سہی لیکن رائو انوار بہت خوش ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اب مشرف حکومت ایم کیو ایم سے جان چھڑالے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، اے این پی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے بہت شور ڈالا لیکن الطاف حسین اور مشرف کی محبتوں میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخر کار اسی مشرف کے ساتھ پیپلز پارٹی نے این آر او کرلیا۔ اس این آر او کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا لیکن ایم کیو ایم کو بہت فائدہ ہوا۔ ایم کیو ایم کے ہزاروں گرفتار کارکن رہا کردیئے گئے۔
ماضی کے یہ واقعات مجھے سندھ کے آئی جی جنا ب اے ڈی خواجہ کا یہ بیان پڑھ کر یاد آئے جس میں موصوف نے کہا کہ 1996میں امن قائم کرنے والے پولیس افسران کو چن چن کر مارا گیا اور انہیں مارنے والے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے رہے۔ کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی سندھ نے یہ بھی کہا کہ سوسائٹی خاموش رہی اور بہت سے قاتلوں نے این آر او کا فائدہ بھی اٹھایا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اے ڈی خواجہ نے بہت سے سیاستدانوں کی طرح آدھا سچ بولا اور اس سوسائٹی کو کوس ڈالا جو آج بھی پولیس کے ناکوں پر لٹتی ہے اور لٹنے سے بچنے کی کوشش میں گولیاں بھی کھاتی ہے۔ اے ڈی خواجہ صاحب مشرف دور میں نجانے کہاں تھے۔ مناسب سمجھیں تو ذرا رائو انوار کو اپنے پاس بلالیں اور اگر رائو انوار بلانے پر نہیں آتے تو انہیں فون کرکے پوچھ لیں کہ جب ایک فوجی حکمران رائو انوار جیسے پولیس افسران کو تحفظ دینے میں ناکام تھا تو اس بے اختیار سوسائٹی کے وہ کون لوگ تھے جو کراچی پولیس کے مفرور افسران کی مدد کیا کرتے تھے؟ اے ڈی خواجہ صاحب کو یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ جس این آر او کا محترمہ بینظیر بھٹو کی بجائے ایم کیو ایم نے فائدہ اٹھایا اس این آر او کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسترد کردیا تھا۔ رائو انوار سے یہ بھی پوچھ لیا جائے کہ جب وہ آج کے غداروں کے سیاسی عروج میں کچھ اہم اور بااختیار لوگوں کو الطاف حسین کے کچھ ساتھیوں کے بارے میں دستاویزی ثبوت دیا کرتے تھے تو انہیں کیا کچھ سننا پڑتا تھا؟ میڈیا میں جو لوگ ا لطاف حسین کے بارے میں سچ بولتے تھے ان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی جاتیں۔ ان تقاریر پر پاکستان کی عدالتوں نے2015میں پابندی لگادی تھی۔ میڈیا پر الطاف حسین کی تقاریر بند ہوگئیں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوگئیں تو کچھ غداروں پر سے ملک دشمنی کے داغ دھبے صاف کرنے کے لئے ایک لانڈری بنائی گئی جو اس لانڈری سے گزر جائے وہ محب وطن جو نہ گزرے وہ غدار۔ الطاف حسین کے تو ریڈ وارنٹ بھی جاری ہوگئے ان کے خلاف ضرور کارروائی کریں لیکن جس شخص کی سرپرستی میں الطاف حسین کراچی پولیس کے افسران کی زندگی کے فیصلے کرتے تھے کیا اس کے بارے میں اے ڈی خواجہ کچھ کہنا پسند فرمائیں گے یا صرف اس ملک کی بے اختیار سوسائٹی پر تنقید کرکے کراچی کے تاجروں سے داد وصول کرتے رہیں گے۔ اول تو کسی فوجی افسر، پولیس افسر، جج یا بیوروکریٹ کو سیاسی تقریر سے گریز کرنا چاہئے لیکن اگر تقریر بہت ضروری ہے تو پھر تھوڑا سچ بھی بول دیں اور یہ بھی بتادیں کہ جب آپ کو آئی جی کے عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تو اس ملک کی بے اختیار سوسائٹی بھی بولتی ہے، میڈیا بھی بولتا ہے اور سیاسی جماعتیں بھی بولتی ہیں۔ پھر اس ملک کی عدالتیں آپ کی مدد کو آتی ہیں آپ آئی جی کے عہدے پر برقرار رہتے ہیں لیکن تقریر کے شوق کو پورا کرتے ہوئے آپ اس سوسائٹی پر طعنہ زنی ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سوسائٹی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، سوسائٹی مجرم قرار پاتی ہے اور آپ ان سب کے با رے میں خاموش رہتے ہیں جو کراچی پولیس کے افسران کے قاتلوں کو کبھی غدار اور کبھی محب وطن بناتے ہیں اور ان سے کوئی جوابدہی نہیں کرسکتا۔

.
تازہ ترین