• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کنجی ہمارے پاس ہے
ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پاکستان کو لاحق جملہ امراض کے ذمہ دار اپنے اپنے دائرہ کار میں ہم سب ہیں، کسی کی جانب انگلی اٹھا کر اسے الزام دینے کی بجائے پوری قوم یوم اعتراف منائے، خود کو موردِ الزام ٹھہرائے اور نئے عزم کے ساتھ اب اس ملک کو بنانے سنوارنے کا عمل شروع کر دیں۔ یہی واحد حل ہے، ورنہ ہمارا کوئی آج ہے نہ کل ہے، چلتے گھوڑے کو چابک رسید کرنے کا سلسلہ بند اور کسی کے بھی صحیح کام میں اس سے اخلاقی عملی تعاون ہماری ایسی ضرورت ہے کہ جس کی تکمیل میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔ حافظ شیرازی کا یہ نسخہ کامیاب زندگی کا راز اور ایک کامیاب عالمی سیاست میں مقام پیدا کرنے کی ترکیب ہے ؎
آسائش دوگیتی تفسیر ایں دو حرف است
بادوستاں تلطف بادشمناں مدارا
(دو جہانوں کی آسائش ان دو باتوں میں پوشیدہ ہے، دوستوں سے نرمی اور دشمنوں سے حسنِ سلوک)
اب تک وطن عزیز کو ہم سب نے مل کر اپنے لئے بدنامی کا ٹیکہ اور مفلسی کا گھر بنا دیا ہے، چند خاندانوں، افراد کی خوشحالی و ترقی سے ملک تیسرے درجے پر اور ترقی کا خواب بے تعبیر رہ جاتا ہے۔ آئی جی سندھ کی یہ بات اچھی لگی کہ کب تک کراچی کو رینجرز کی بیساکھی پر چلائیں گے۔ سپریم کورٹ کا کہنا کہ کرپشن کے خلاف اختیارات لامحدود ہیں اداروں کو درست کرنے کے لئے ان کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے غلط فیصلے کو امریکی وفاقی عدالت کا مسترد کرنا اور اس پر عملدرآمد شروع ہو جانا ہمارے لئے ایک مثال ہے۔ اگر کسی ملک کا قبلہ راست کیا جا سکتا ہے تو فقط عدلیہ ہی یہ کام کر سکتی ہے بشرطیکہ تمام ادارے اور عوام اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کو ممکن بنائیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور کلید نہیں جس سے ہم اپنی قسمت کا بند تالا کھول سکیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
مذہب کا غلط استعمال
کسی بھی قوم کے عروج و زوال کے لئے مذہب سے بڑھ کر موثر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ مذہب ایسی محفوظ پناہ گاہ ہے چاہو تو اس کے ذریعے محفوظ گناہ کر لو اور چاہو تو اسے ہر مشکل سے اپنی نجات کا وسیلہ بنا لو۔ دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے مظالم اور جرائم مذہب ہی کی آڑ لے کر کئے گئے۔ہمارے ہاں یہ دستور عام ہے کہ ایک ہی راستے کے راہی ایک دوسرے کی تیز رفت ترقی کو اپنے شعبے کی اجتماعی عزت سمجھنے کی بجائے اپنے ہی بدن پر دانت گاڑھ لیتے ہیں۔ اگر میڈیا ہی میڈیا کی ٹانگ کھینچے گا تو کوئی بھی میڈیا ہائوس آگے نہ بڑھ سکے گا۔ جنگ جیو اگر آج پہلے نمبر پر ہے تو یہ میڈیا پہلے نمبر پر ہے۔ ہم نے اب تک اس ذاتیاتی پرخاش اور تعصب کے باعث کتنے ہی محب وطن کھو دیئے، کتنے اچھے فعال ادارے رسوا کر کے رکھ دیئے، نتیجہ یہ ہو گا کہ پورے میڈیا پر دنیا کا اعتبار نہیں رہے گا۔ مثبت سوچ ہی نے قوموں کو بلندی عطا کی اور منفی ذہنیت نے گھر، ادارے، ملک اجاڑ کر رکھ دیئے۔ آج مذہب کے غلط استعمال نے ہر داڑھی پگڑی والے کو رسوا کر دیا اور ہمیں من حیث القوم اسی لئے دہشت گرد سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے مذہب کو انتہا پسندی سمجھا اور اسے پھیلانے کی کوشش کی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
بسنت یا گردن اڑنت؟
حکومت پنجاب کا بسنت نہ منانے کا فیصلہ۔ بجائے اس کے کہ بسنت کو بسنت ہی رہنے دیا جاتا اسے گردن اڑنت نہ بنایا جاتا، ہم نے اسے بھی مذہب کی چھتری تلے لا گھسیٹا۔ اس کی تاریخ، وجوہات و اسباب کچھ بھی ہوں مگر آج یہ ایک کھیل ہے جس کا انسانی تفریح سے تعلق ہے۔ جب موسم بسنتی ہو جاتا ہے، ہوائیں خوشگوار ہو جاتی ہیں، پھول کھلنے لگتے ہیں تو پتنگ محفوظ انداز سے اڑانا اور اسے تکلیف کی جگہ تفریح بنایا جاتا تو پنجاب حکومت اتنی بدذوق نہیں کہ لوگوں سے خوشی کے مواقع چھینے، مگر کیا کیا جائے کہ ہم کھیل ہو میل ہو ہر چیز میں انتہا پسند ہو جاتے ہیں۔ دشمنی کی حد تک مقابلہ بازی اور ہتک عزت پر اتر آتے ہیں۔ پھر یہ کھیل تو نہ رہا موت کی اوپن سیل ہو گیا۔ ہمارا دین کسی کی ہنسی نہیں روکتا مگر لاشوں پر ہنسنے کھیلنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ جب کوئی قوم پستیوں کی پاتال میں اتر جائے تو اس کے اچھے کام بھی برے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پہلے اجتماعی سطح پر خود کو مہذب بنانا ہو گا اور کسی کی اذیت میں اپنی تفریح ڈھونڈنے کی مکروہ عادت کو ترک کرنا ہو گا پھر کوئی پابندی نہیں جس کا جی چاہے اپنے لئے اپنے ماحول کے لئے خوشیوں کا اہتمام کرے۔ اگر ہم راہ راست پر نہ آئے تہذیب و اخلاق کا دامن نہ تھاما تو ہماری بسنت تو کیا عیدیں، شبراتیں، شادی بیاہ الغرض خوشی کا ہر موقع ایک وقوعہ بن جائے گا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے بھی بسنت کے رنگ اڑنے اور اس کی مہلک صورت بن جانے کے باعث ہی پابندی عائد کی ہے ورنہ یہ کوئی خالصتاً بے ضرر خوشی کا تہوار سمجھ کر منایا جاتا تو وزیر اعلیٰ پنجاب بھی پیچا ڈالتے مگر ان کو تو تمام اہل پنجاب کے مجموعی جانی مالی تحفظ کو پیش نظر رکھنا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
دو باتیں
٭ کرپشن ختم کئے بغیر ہم چین سے نماز بھی نہیں پڑ سکیں گے۔
٭ کسی سے نیکی محض واقفیت کی بنیاد پر نہ کریں۔
مثلاً واقف کو السلام علیکم اور ناواقف سے آنکھ بچا کر گزر جانا۔


.
تازہ ترین