• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فطرت، قدرت، کائنات اور زندگی ایک ترازو ہی تو ہے۔ صحیح مقدار کا تعین اصل معاملہ ہے۔ ذرا گڑبڑ ہو جائے تو کھانے سے لے کر زندگی تک خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ہر شے میں ایک خاص حُسنِ تناسب اور ترتیب عدل کو جنم دیتی ہے۔ عدل پر دنیا قائم ہے۔
اگر زندگی میں صرف یہی ایک اصول اپنا لیا جائے کہ ہرکام مخصوص ضابطے اور قاعدے کے مطابق ہوگا تو بہت سی محرومیاں ناکامیاں اور حسرتیں اپنا وجود کھو دیں۔ سرکاری اداروں میں بھرتی ایک ایسا مشکل مرحلہ ہے جسے پُل صراط پر چل کر عبور کرنے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔بھرتی کی درخواست کے ساتھ ہر دوست، احباب کی چِٹھی اس توقع کی ضمانت ہوتی ہے کہ ان کو ہر حال میں ترجیح دی جائے گی۔ نیز یہ کہ بھرتی کرنے والا ہرقاعدے قانون کوتوڑموڑ کر جو چاہے کرسکتاہے۔
میرٹ کی خلاف ورزی سے حق تلفی اور محرومی کا جواحساس جنم لیتا ہے وہ نسلوں تک نفرت بن کر سفر کرتا ہے۔ انسان تمام عمر ذمہ داروں کو قصور وارہی نہیں ٹھہراتا بلکہ ناکامی پر کڑھتا رہتا ہے۔ میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ دَس لوگوں کو نواز سکتے ہیں مگر ہزاروں لوگوں کو ناپسندیدگی، نفرت، بے بسی اور مایوسی کی آگ میں جھونک کر خود کو متنازع کر لیتے ہیں۔ ماضی میں ایسی مثالیں عام رہیں جس سے لوگوں کا سرکاری اداروں میں بھرتی پراعتبار اُٹھ گیا اور ہرکوئی تگڑی سفارش یا بھاری رقم کے سہارے تلاش کرنے پر مجبور ہوگیا۔مگر اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ خوشگوار تبدیلی واقعتا ہمارے معاشرے میں بسیرا کر چکی ہے۔ اصول و ضوابط کی حکمرانی تسلیم کرنے کو افضل سمجھا جانے لگا ہے۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہی ہوں کہ میں خود اس عمل سے گزری ہوں۔ گزشتہ دنوں پِلاک نے اپنے مختلف منصوبوں کے لئے 35افراد کے لئے اخبارات میں اشتہارات دئیے۔ایک ایک سیٹ کے لئے سینکڑوں لوگوں نے اپلائی کیا۔ اسکرونٹی کے کڑے عمل کے بعد لوگوں کو انٹرویو کے لئے طلب کیا گیا۔ انٹرویو صرف اُمیدواروں سے ملاقات اور ان کا ملازمت کے لئے جذبہ دیکھنا مقصود تھا کیوں کہ انٹرویو کے نمبر صرف 5 رکھے گئے ہیں جب کہ ماضی میں انٹرویو کے 20اور 40نمبر رکھے جاتے تھے اور من پسند اُمیدوارں کو انٹرویو کے نمبروں کے ذریعے نواز دیا جاتا تھا۔ اب پنجاب گورنمنٹ نے بھرتیوں کیلئے جوپرفارما بنایاہے اُس کی مدد سے ہر اُمیدواراپنا میرٹ خود بنا سکتا ہے۔ اپنی تمام اسناد کی ڈویژنز کے حوالے سے نمبر، اضافی تعلیم کے نمبر اور حقیقی معنوں میں کسی متعلقہ ادارے میں تجربے کا سرٹیفکیٹ موجود ہو تو اُس کے نمبر ملا کر جو میرٹ بنایا جاتا ہے۔ وہ حتمی ہوتا ہے۔ یہ میرٹ مختلف درجوں پر پرکھا جاتا ہے۔ اگرکوئی افسر چاہے بھی تو 60نمبر لینے والے فرد کو 80نمبر والے پر صرف انٹرویو کے 5نمبروں سے ترجیح نہیں دے سکتا۔ میں حیران بھی ہوں اور خوش بھی کہ ان تمام مراحل کے دوران مجھے کسی بھی سیاسی شخصیت کی طرف سے ہدایت نامہ موصول ہوا نہ کوئی مخصوص لسٹ فراہم کی گئی۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں پورے پنجاب سے منتخب ہوکر آنے والے اُمیدواروں کی آنکھوں میں جوائننگ والے دن ایک عجیب چمک تھی۔ جب میں نے اُن سے پوچھا کہ اس نوکری کے حوالے سے آپ کے کیاتاثرات تھے اور کیا توقعات تھیں تو اکثر کا یہی جواب تھا ہم توغریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بڑی مشکل سے تعلیم حاصل کی۔ ہماری تو کوئی سفارش بھی نہیں اس لئے کوئی اُمید نہیں تھی مگر اب محسوس ہو رہا ہے واقعتاً پنجاب بدل رہا ہے۔ نئی نسل کا یہ اعتماد ہی ہماری طاقت ہے۔ میرٹ پرمنتخب ہوکر آنیوالے یقیناً زیادہ دلجمعی اور محنت سے کام کریں گے اور اپنے صوبے و ملک کو خوشحال بنانے میں ہرممکن کوشش کرینگے۔
میں شکر گزار ہوں وزیراعلیٰ پنجا ب کی،جن کے وژن اور رہنمائی سے پنجا ب اپنے اصل ہدف کی طرف بڑھ رہا ہے۔میں ممنون ہوں چیف سیکرٹری کی جن کی حکمت عملی اور قواعد و ضوابط پر سختی سے کاربند رہنے کی پالیسی سے محکمے درست سمت سفر آغاز کرچکے ہیں۔ میں دل سے دعا گو ہوں سیکرٹری انفارمیشن،کلچر کی جو اس محکمے کے سربراہ ہیں مگر اپنی پسند کی بجائے قانون کے ضابطوں کی پذیرائی کرتے ہیں اور اپنے ماتحت اداروں کا مورال بلند رکھ کر ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کی طرف گامزن ہیں۔ آج وہ دن طلوع ہوچکا ہے جب واقعتا ًہم مہذب اورترقی یافتہ قوم بننے کی طرف چل پڑے ہیں۔خداکرے دیگر صوبوں کے پالیسی ساز اورحکمران بھی پنجاب کی پیروی کرتے ہوئے میرٹ کو شفاف بنا کر نئی نسل کی آنکھوں میں روشن مستقبل کی اُمیدیں جگمگانے میں کامیاب ہوں۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ملک کی تعمیر کا فریضہ انہیں سونپیں۔
گجرات یونیورسٹی کے لاہور کیمپس میں لیپ ٹاپ تقسیم کی تقریب میں شمولیت بھی ایک احساسِ تفاخر میں ڈھل گئی۔ بہت سنا تھا مگر پہلی بار احساس ہوا کہ یہ اسکیم کس قدر افادیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے بغیر تلقین اور تبلیغ کے غیر محسوس طریقے سے طلباء کو محنت کی طرف راغب کر کے زیادہ متحرک کر دیا گیا ہے۔ اب انعام کا فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے جو مطلوبہ نمبر حاصل کرنے پر خود بخود ان تک پہنچ جاتا ہے۔ ہر نسل کو وقت کی رفتار اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق دانش ودیعت ہوتی ہے۔ آج کی نسل ٹیکنالوجی اور دیگر سہولتوں کے باعث ہم سے کہیں زیادہ باصلاحیت ہے۔ ہمیں تو صرف انہیں صحیح راستے پر گامزن کرنا ہے۔ ان کی شخصیت کی شیرازہ بندی کرنی ہے۔ ان کے خیالات کو بھٹکنے سے بچانا ہے۔ انسانی قدروں سے متضاد رویّوں سے محفوظ کرنا ہے۔ خیر اور شر کو گڈ مڈ کر کے حقیقت کا چہرہ بگاڑنے سے گریز کرنا ہے کیوں کہ ان کے سامنے ہر شے کی واضح تصویر موجود ہے۔ بڑوں کے کردار کا تضاد اس تصویر کو دھندلا کر منظر نامے کو مشکوک کرتا ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری انہیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ہے۔ ہر سال تعلیم مکمل کرنے والے لاکھوں نوجوانوں کو سرکاری نوکری فراہم کرنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔کیا ہی اچھا ہو اگر پرائیویٹ فرمیں، کارخانے اور دیگر تمام ادارے ہرسال پانچ طلباو طالبات کو تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اِنٹرنی کے طور پرچھ ماہ کے لئے یا ایک سال کے لئے اپنے اداروں میں نوکری دیں۔ انھیں تجربہ بھی حاصل ہو جائے گا اور اعتماد بھی ہو سکتا ہے وہ خود سے کوئی کاروبار شروع کرنے کی ہمت کرلیں اور دوسروں کے لئے روزگار کا وسیلہ بن جائیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بلاسود قرض کے ذریعے اپنی قسمت بنانے کا موقع دینا بہترین حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔ ملک کو خوبصورت بنانے کے لئے ہم سب کو نئی نسل کی رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالنی ہو گی اور ہر کسی کو اپنی اپنی سطح پرمتحرک ہو کر انہیں مایوس ہونے سے بچانا ہو گا ورنہ ورغلانے والے کامیاب ہو گئے تو ہم بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

.
تازہ ترین