• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف شیخوپورہ میں قائد اعظم تھرمل پاور منصوبے کے معائنے کے بعد تقریب سے خطاب کے دوران جب اپنے سیاسی مخالفین کو قومی ترقی کے منصوبوں میں ہاتھ بٹانے کا مشورہ دے رہے تھے تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کے پیش نظر جمہوری نظام کی وہ روایات تھیں جن میں حکومت اور اپوزیشن کی حیثیت ایک گاڑی کے دو پہیوں جیسی ہوتی ہے۔ دونوں میں سے کسی کی رفتار اور کارکردگی میں فرق آئے تو قومی ترقی و خوشحالی کا سفر متاثر ہوتا ہے۔ جمہوری نظام اپوزیشن کو تنقید کا جو حق دیتا ہے اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ حالات میں بہتری لانے، ترقی و خوشحالی کے منصوبوں کو عملی شکل دینے اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے اختیار کئے گئے طریق کارمیں جہاں کمزوریاں نظر آئیں، انہیں بروقت درست کیا جاتا رہے۔ اس تنقید یا اختلاف رائے کا مقصد حکومت کو ناکام بنانے، اس کے ترقیاتی کاموں کو سبوتاژ کرنے یا عوامی فلاح کے اقدامات میں رکاوٹ ڈالنا نہیں بلکہ ان میں تعاون کرنا ہوتا ہے۔ ان کا مذاق اڑانے یا صرف نقائص نکالنے اور بہتری کے پہلوئوں کو نظرانداز کرنے یا مزید بہتری کی تجاویز دینے سے پہلوتہی کو جمہوری اقدار سے ہم آہنگ نہیں کہا جاسکتا۔ وطن عزیز کو ہم ایک جمہوری ملک کے طور پر عوامی فلاحی ریاست کی منزل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو من حیث القوم تمام مکاتب فکر، بالخصوص سیاست سے تعلق رکھنے والے حلقوں کو تنقید اور تنقیص کے فرق کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے قائد اعظم تھرمل پاور منصوبے پر 15ماہ کی مدت میں 84فیصد کام مکمل ہونے اور مزید ڈیڑھ ماہ میں تمام مراحل سے گزرنے کے امکان کو تعمیری تیز رفتاری کی حیران کن مثال قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 2013ء میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تو دہشت گردی اور انتہائی کمزور معیشت کے تناظر میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جارہا تھا مگر آج دنیا بھر میں حکومتی کارکردگی کو سراہا جارہا ہے۔ وزیراعظم کی ان باتوں کی تصدیق عالمی میڈیا میں آنے والی رپورٹوں اور مالیاتی اداروں کے جائزوں سے بھی ہورہی ہے۔ اسی ہفتے کے دوران بلوم برگ (6؍فروری) میں شائع ہونے والے دو آرٹیکلز کے علاوہ بزنس انسائڈر کی (7؍فروری کی) رپورٹ اور ’’پرائس واٹر ہائوس کوپرز‘‘ کے جائزے پاکستانی معیشت میں ترقی کی حیرت انگیز رفتارکی نشاندہی کررہے ہیں۔ ان کے تجزیوں سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام آباد کو 2030ء، میں دنیا کی بیسویں اور 2050ء میں 16ویں معاشی طاقت کا درجہ حاصل ہوگا۔ قبل ازیں مئی 2016ء میں ’’اکنامسٹ‘‘ نے رپورٹ دی تھی کہ پاکستانی معیشت کی کارکردگی امریکہ اور کینیڈا سے بھی بہتر ہے۔ مؤقر کاروباری جریدے فوربس کا کہنا تھا کہ امریکی پالیسی سازوں اور بزنس لیڈروں کی نگاہیں اب پاکستان پر مرکوز ہیں۔ بلوم برگ کی 30؍جون 2015ء کی رپورٹ کے مطابق تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی نے پاکستان کو ایک ابھرتی ہوئی معیشت بنادیا ہے۔ یہ حوالے چند رپورٹوں کے ہیں فروری 2016ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والے عالمی بینک کے صدر جم یونگ کم سمیت مختلف اداروں کے اہم عہدیداروں اور تجزیہ کاروں نے جن تاثرات کا اظہار کیا ان سے بھی واضح ہے کہ پاکستانی معیشت تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہی ہے یہ رفتار برقرار رہی تو پاکستان کی شرح ترقی 5بہترین ملکوں میں شمار ہوگی۔ اس منظرنامے میں وزیر اعظم اگر ایسے وقت کی آمد کی نوید دے رہے ہیں جس میں بجلی، جوکبھی 36روپے فی یونٹ ملتی تھی 6.36روپے یونٹ میں ملنے لگے گی اور کاشتکاروں اور کارخانے داروں کو دو تین روپے فی یونٹ میں دستیاب ہوگی تو سب ہی کو اسے سراہناچاہئے۔ ہمارے سیاستدانوں، سائنس دانوں، صنعت کاروں اور محققین کو ایسی تحقیقی تجاویز تیار کرنی چاہئیں اور انہیں روبہ عمل لانے میں حکومت سے تعاون کرنا چاہئے جن سے ملک کے عام آدمی کو فائدہ پہنچے اور وطن عزیز ترقی کی منزلیں مسلسل سر کرتا رہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم تنقید تو کریں مگر تنقیص کو اپنا شعار نہ بنائیں۔

.
تازہ ترین