• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی کارکنوں کی سوانح حیات اور یادیں چلتی پھرتی زندہ تاریخ ہوتی ہیں جو مورخین کے لئے بنیادی حوالے بن جاتی ہیں۔ ان کے مشاہدات کو جھٹلانا ممکن نہیں ہوتا اور ان کے مشاہدات ہی کسی لیڈر کی اصلی شخصیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ میں گزشتہ دنوں نواب صدیق علی خان مرحوم کی کتاب’’بے تیغ سپاہی‘‘ پڑھ رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے قیام پاکستان کے بعد مسائل ایک فلم کی مانند چل رہے تھے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان شہید ملت کے بارے میں ہے اور اس کی ہر سطر خلوص، سچائی اور جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل نواب صدیق علی خان کے نام سے واقف نہیں ہوگی۔ نواب صدیق علی خان تحریک پاکستان کے سرگرم اور ممتاز رکن تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سیاسی معتمد رہے اور سالار اعلیٰ تھے۔ اس لئے وہ ہماری آغاز کی تاریخ کے عینی شاہد ہیں۔ نواب صاحب نے ان گنت دلچسپ واقعات لکھے ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ چند ایک مشاہدات کا ذکر کروں گا۔ مقصد آپ کو ا پنی تاریخ کی مختصر سی سیر کرانا اور جھلک دکھانا ہے۔
دسمبر1947میں کراچی کے خالق دیناہال میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا آخری اجلاس منعقد کیا جارہا تھا جس میں مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم ہونا تھا۔ ایک انڈین مسلم لیگ اور دوسری پاکستان مسلم لیگ۔ اکثر مورخین اور لکھاری یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ قائد اعظم کو قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کا صدر بیان کرتے ہیں۔ گورنر جنرل بننے کے بعد قائد اعظم نے مسلم لیگ کا صدر بننے سے معذرت کرلی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اس تاریخ ساز اجلاس میں اعلان کردیا تھا کہ وہ آئینی سربراہ ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے تمام شہریوں کے لئے سربراہ مملکت ہیں اس لئے وہ کسی ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں رہیں گے۔ مختصر یہ کہ قائد اعظم ا ٓل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب صدر تھے اور صدر رہے لیکن قیام پاکستان کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے کبھی صدر نہیں رہے۔ اس کی تفصیل میری کتاب’’مسلم لیگ کا دور حکومت‘‘ میں موجود ہے۔
محترم صدیق علی خان لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں داخلہ بذریعہ پاس یا ٹکٹ تھا۔ ہندوستان اور پاکستان سے مسلم لیگ کونسل کے اراکین کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ بطور سالار اعلیٰ صدیق علی خان کی ڈیوٹی صدر دروازہ پر تھی تاکہ وہ دعوت نامہ دیکھ کر داخلے کی اجازت دیں۔ صدیق علی خان کو قائد اعظم سے گہری عقیدت تھی اور وہ بے چینی سے ان کا انتظار کررہے تھے۔ قائداعظم وقت مقررہ پر آئے،سالار اعلیٰ نے ان کا استقبال کیا۔ ہال کے اندر داخل ہو کر قائد اعظم چند قدم چلے اور پھر رک گئے۔ انہوں نے اشارے سےصدیق علی خان کو بلایا اور چپکے سے دریافت کیا کہ تم نے مجھ سے داخلے کا ٹکٹ (اجازت نامہ) کیوں نہیں مانگا۔ مصنف کے الفاظ یہ ہیں’’میں جانتا تھا کہ میرا کوئی بھی معقول سے معقول عذر درخور اعتنا نہیں ہوگا اس لئے اعتراف خطا کیا، ان کے چہرہ مبارک پر ہلکی سی مسکراہٹ بجلی کی مانند کوندی، میرے لئے تو ان کی یہ آخری مسکراہٹ ایک بے بہا خزانہ تھی جو آج تک میرے دل میں محفوظ ہے۔ اس ایک چھوٹے لیکن کردار ساز واقعہ کو ہمارے اکابرین اور نوجوان اپنی زندگی کا لائحہ عمل بناسکتے ہیں‘‘۔نواب صدیق علی خان نے اس واقعے کو مثال بنا کر لکھا ہے کہ ہمارے اکابرین اپنے قائد کی پیروی کریں۔ اس واقعے کا مفہوم یا پیغام کیا ہے؟۔ پیغام یہ ہے کہ پاکستان میں وی آئی پی کلچر نہیں ہوگا ، دوم یہ کہ قانون سب کے لئے برابر اور یکساں ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پاکستان میں قانون کی حاکمیت ہوگی اور چھوٹے سے چھوٹا قانون یا ضابطہ یا حکومتی فیصلہ اسی طرح گورنر جنرل پر بھی لاگو ہوگا جس طرح عام شہریوں پر.......قائد اعظم آئینی ذہن، قانونی سوچ اور روشن خیالی کے اوصاف سے مالا مال تھے اور وہ پاکستان میں انسانی مساوات اور برابری کے کلچر کو فروغ دینا چاہتے تھے جس کی مثالیں وہ خود قائم کرتے رہتے تھے۔ وہ زندہ رہتے تو ایسا ہی ہوتا۔ لیاقت علی خان بھی قائد اعظم کے نقش قدم پر چلتے رہے لیکن لیاقت علی خان کی بے وقت موت نے پاکستان کو اپنے بانیان کی میراث سے محروم کردیا اور پھر ہماری آنکھوں کے سامنے جمہوریت کے نام پر پاکستان میں ملوکیت اور شہنشائیت کو پروان چڑھایا گیا۔ حکمرانوں نے اپنے آپ کو بادشاہت کے سانچے میں ڈھالا، وی آئی پی کلچر پیدا کیا، اپنے آپ کو عوامی نمائندہ سمجھنے کی بجائے بالاتر مخلوق بنالیا۔ ان کی دیکھا دیکھی حکمران طبقوں نے بھی اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے اسی روش کو اپنالیا۔ بالا دستی کے ذریعے ہی وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتے تھے۔ کیا آپ آج یہ تصور کرسکتے ہیں کہ کسی حکمران سے دعوت نامہ یا ٹکٹ مانگا جائے؟ حکمران تو دور کی بات ہے اگر آپ کسی رکن اسمبلی ، بیوروکریٹ یا فوجی افسر سے بھی کاغذات چیک کروانے کا مطالبہ کریں تو آپ کی نوکری بھی جاسکتی ہے اور سرراہے آپ کی مرمت بھی ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے مجھے ایک اور چھوٹا سا واقعہ یاد آرہا ہے جو قائد اعظم کی شخصیت اور سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ کیپٹن عطا ربانی گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اتوار کا دن تھا اور گورنر جنرل پاکستان شام ڈھلے کار پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی جانب جارہے تھے۔ صرف دو گاڑیاں ہوتی تھیں۔ ایک میں گورنر جنرل تشریف فرما ہوتے تھے اور دوسری پیچھے آتی تھی۔
سڑکوں پہ کسی کو علم تک نہیں ہوتا تھا کہ کوئی وی آئی پی قافلہ جارہا ہے۔ ہٹو بچو شہنشائے پاکستان تشریف لارہے ہیں ،کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ کیپٹن ربانی صاحب لکھتے ہیں کہ ریلوے گیٹ بند تھا چنانچہ گورنر جنرل کی گاڑی رک گئی۔ اے ڈی سی اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا کار رکی تو کیپٹن ربانی دروازہ کھول کر باہر نکلے اور دیکھا تو دور تک ریل گاڑی کا نام و نشان نہیں تھا۔ وہ گیٹ کیپر کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ کار میں قا ئد اعظم تشریف رکھتے ہیں چند منٹوں کے لئے گیٹ کھول دو کہ ان کی کار نکل جائے۔ اس نے گیٹ کھول دیا کیپٹن صاحب جلدی سے آکر کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھے اور ڈرائیور کو چلنے کا کہا۔قائد اعظم نے اے ڈی سی کو فوراً منع کیا اور کہا کہ اگر میں قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو پاکستان میں کوئی بھی قانون کی پروا نہیں کرے گا چنانچہ جب تک ریل گاڑی نہیں گزری وہ وہیں کھڑے رہے۔ سچ یہی ہے اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب حکمران قانون کو روندنا شروع کریں تو پھر ملک میں لاقانونیت کا سیلاب پھیل جاتا ہے۔ فوج کا سربراہ باغ سے ایک سیب اتار لے تو فوج پورے باغ کو کھا جاتی ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان لاقانونیت کا گہوارہ بن چکا ہے اور ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہاں طاقتور کے لئے اور قانون ہے اور کمزور کے لئے کوئی اور......قائد اعظم پاکستان میں قانون کی حکمرانی، انسانی برابری اور معاشی انصاف چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے ان کے خواب کی تکمیل کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔

.
تازہ ترین