• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’جناب عالی، میں ایک یتیم ہوں اور ضلع کونسل خیرپور کی کونسلر ہوں۔ میں شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میرس سے ایم فل کر رہی ہوں۔ میرے سسرالیوں نے پہلے مجھے ’’کاری‘‘ قرار دیا، وہ آج رات مجھے قتل کردیں گے۔ میرا کوئی نہیں ہے اور میں ماری جا رہی ہوں۔ انہوں نے مجھ پر کاری ہونے کا الزام لگایا ہے اور اس سے سردار سکندر علی شر کو بھی مطلع کردیا ہے۔ اس نے تیرہ محرم کو فیصلے کی تاریخ طے کی۔ لیکن میرے پاس خبر ہے کہ وہ فیصلہ نہیں کر رہے۔ میرا بہنوئی پولیس میں کانسٹیبل ہے۔ وہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ خدا کے واسطے مجھے تحفظ دیجیے۔ تاخیر مت کریں، مجھے بچائیں۔‘‘
یہ خط میں الفاظ خیرپور میرس ضلع کے ٹھری میرواہ کی اس نوجوان لڑکی نور خاتون شر کے ہیں جسے نام نہاد ’’غیرت‘‘ کے نام پر قتل کیا جارہا تھا اور جس نے اپنی جان کے تحفظ کے لئے مندرجہ بالا خط ضلع کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کو لکھا تھا جہاں اس وقت نفیسہ شاہ ضلع ناظم تھی۔ نور خاتون شر پڑھی لکھی تھی اس کا والد وکیل تھا پھر بھی اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہونے جا رہا تھا۔ نور خاتون شر شمالی یا اپر سندھ میں ذرا خوش نصیب تھی کہ ایک بڑے جہنم سے گزار دیئے جانے کے بعد آخرکار جان کی امان پا گئیں لیکن اس جیسی ہزاروں عورتیں اور لڑکیاں اس شمالی سندھ میں ہیں جو سندھ میں غیرت کے نام پر قتل کاروکاری کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔ اب نفیسہ شاہ نے اس موضوع پر انگریزی میں کتاب ’’آنر ان ماسکڈ‘‘ یا ’’غیرت بے نقاب‘‘ لکھی ہے جسے آکسفورڈ یونیورسٹی نے پاکستان سے اور برطانیہ اور امریکہ میں یکے بعد دیگرے شائع کیا ہے۔ نفیسہ شاہ کی یہ کتاب اگر میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا تو ناقابل اعتبار گہرا مطالعہ اور ریسرچ سندھ کی سماجیات پر وہ بھی اسی طرح کہ علم البشریات کے تحقیقی میدان میں نئی جہتیں متعین کرے۔
وہ لڑکی جو کبھی قلم اور نوٹ بک سنبھالے سندھ کے صحرائوں کی خاک چھانتے بحیثیت صحافی نگری نگری پھرا کرتی تھی جو ایک صحافی سے زیادہ میری طرح کسی خانہ بدوش قبیلے کی فرد لگا کرتی تھی۔ کبھی تھر تو کبھی چولستان، کبھی کوہستان کبھی وڈھ خضدار بلوچستان یہاں تک کہ افغانستان کابل اور قندھار، جہاں جہاں بقول اوریانی فلاسفی کہ انسان کا بگڑا مقدر تھا وہاں اس لڑکی نے جانے کی کوشش کی تھی۔ میں تو نوٹ بک بھی نہیں رکھتا تھا۔ لیکن ہم ’’ٹائپ رائٹر گوریلے‘‘ کہلایا کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کہی، غیردریافت کئے ہوئے موضوعات اور علاقوں کی طرف سفر میں گامزن۔ کئی کہانیاں ہم نے ساتھ بھی کیں، ہم سب ہماری ایڈیٹر نیوز لائن رضیہ بھٹی کی قدآور شخصیت کے گھنے درخت کے نیچے تھے۔ ہر وہ چیز کہانی کی صورت ڈھونڈ لاتے تھے جو کہیں اور شائع نہیں ہوسکتی تھی وہ ’’نیوز لائن‘‘ میں چھپ سکتی تھی۔ اسی طرح نفیسہ شاہ شاید پہلی صحافی تھی جس نے سندھ میں کاروکاری یا نام نہاد غیرت کے نام پر عورت کے خلاف ہونے والے صنفی تشدد میں جسے جنسی دہشت گردی کہوں گا، کو سندھ اور ملک سے باہر کی دنیا کو اس کے اصل پس منظر میں متعارف کروایا تھا۔ یہ انیس سو ترانوے تھا جب اس نے شمالی سندھ کا سفر کیا اور جیکب آباد کے تب شہروں کشمور اور کندھ کوٹ تک گئی۔ پٹیلوں، سرداروں، صحافیوں، تھانیداروں، وکلاء، متحارب قبائلی گروہوں، ملزمان اور کاروکاری کے شکار انسان اور معجزانہ طورپر بچ جانے والی کاری عورتوں (جن کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی ہے کئی کیسوں میں) سے ملی اور ایک تحقیقی اسٹوری لئے واپس آئی۔
پھر وہ رپورٹر نفیسہ شاہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے برطانیہ گئی اور اپنی صحافیانہ صلاحیتیں اور تجسس کو کلچرل انتھروپولوجی کا علم حاصل کرنے پر صرف کیا اور پھر وہ بقول اس کے وطن واپسی پر حادثاتی طور سیاستدان بھی بن گئی۔ اب شمالی سندھ اس کا بہت عرصے تک اوڑھنا بچھونا تھا/ہے۔ شمالی سندھ جہاں عورت اور مرد کے رشتے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتے ہیں طے کرلئے جاتے ہیں جسے ’’پیٹ لکھائی کہا جاتا ہے۔ نفیسہ شاہ نے پیٹ لکھائی اور اس ردگردانی پر ہونے والے جھگڑوں اور خونریزی پر اس کتاب میں تحقیق و تفصیل سے لکھا ہے۔ جہاں بھائی اپنی بہن کو جیب میں سیل فون کی گھنٹی یا کسی مرد کا نام لینے پر قتل کردیتا ہے، جہاں چھوٹی بچیوں اور بچوں کو بھی کاروکاری کے الزامات پر قتل کیا جاتا ہے۔ جہاں زیادہ تر ایسے عورت کے خلاف، بقول نفیسہ شاہ، خونریزی کے کلچر کے پیچھے زر اور زمین کے معاملات ہوتے ہیں جن میں بلی بے چاری زن کو ہی چڑھایا جاتا ہے۔
حادثاتی طور ’’سیاستدان‘‘ بنی نفیسہ شاہ جو کہ اندر میں اب بھی امید ہے کہ وہی خانہ بدوش قبیلے کی کسی لڑکی کی روح رکھتی ہوگی (ایک باغی ایکٹوسٹ کی روح جو کبھی عورتوں کو انصاف دلانے کی خاطر دوران احتجاج گورنر ہائوس کے سلاخوں والے گیٹ پر چڑھی ہوتی تھیں) بلاواسطہ انتخابات میں ضلع ناظم بن گئی اور پھر اب دوسری بار ایم این اے اور اس حیثیت میں اس طرح کے کئی فیصلے اور معاملات نمٹاتے ہوئے اس نے گویا شمالی سندھ کی سماجیات اور بشریات کا خوردبین مطالعہ کیا جس کے نتیجےمیں یہ کتاب لکھی ہے۔ ان بیٹھکی غیرملکی گورے مستشرقین کے بہرحال برعکس یہ سندھ کی بشریات اور خاص طور پر عورت کے خلاف تشدد اور وڈیرے اور اس کے وانٹھوں (حواریوں) کی غلطی سے بھی انگڑائی پر سانس مٹھی میں کی ہوئی شمالی سندھ کی بشریات میں عورت کے خلاف صنفی تشدد اور اس کے پس منظر میں طاقت، سماج اور ریاست کی پوزیشن پر پہلا اوریجنل مطالعہ ہے۔ نیز یہ بھی کہ اس میں طاقت، عدلیہ اور ریاست کہاں کھڑے ہیں۔ شاید سندھ کا فاتح سر چارلس نیپئر وہ پہلا اور آخری حکمران تھا جس کے دور میں سندھ میں کاروکاری ختم ہوگئی تھی کہ سر چارلس نیپیئر کاروکاری میں ملوث ملزم کو اس طرح توپ کے منہ میں ڈلواتا تھا کہ اسکی لاش کی شناخت بھی نہ رہے۔ شمالی سندھ اگر کاروکاری کا دیس ہے تو پھر بدقسمتی سے گھوٹکی اور خیرپور، کشمور جیسے اضلاع اس کی راجدھانیاں ہیں، جہاں سندھ کا قومی نشان کلہاڑی علامتی طور عورت کو کاری کررہا ہے۔ میرا ایک دوست صحافی شمالی سندھ کے ایک ایسے جلاد سے ملا تھا جس نے کئی کاری عورتوں کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹا تھا۔ بلکہ وہ گلے گھونٹنے کا ماہر تھا۔ نفیسہ شاہ نے ایسی کئی نور خاتون شر جیسی لڑکیاں، عورتیں بـچائی بھی ہوں گی۔
سندھ جہاں کاریوں کے کوٹ یعنی کاری قرار دی جانے والی عورتوں کے قلعے ہیں جہاں وہ سرداروں بھوتاروں اور پیروں کے کچی مٹی کے قلعے نما جگہوں پر ان کی نام نہاد پناہ میں رکھی جاتی ہیں۔ کئی ان پیروں بھوتاروں سرداروں کے گھر کی باندیاں بنی ہوتی ہیں، یہاں تک کہ کاری قرار دے کر قتل کی جانے والی عورتوں کے الگ قبرستان ہیں۔ نفیسہ شاہ نے زیر نظر اس کتاب کے ایک باب میں کاریوں کے کوٹ کے متعلق بھی لکھا ہے۔ نفیسہ شاہ نے کاروکاری کی کہانیوں کے صحافتی بیانئے میں رومانویت اور دیومالائیت کا بھی ملمع اتارا ہے، مثال کے طور پر کہ کاری کو مارنے سے پہلے اسے عروسی جوڑا پہنایا گيا اور اس کے ہاتھ پائوں پر مہندی لگائی گئی کارو مرد کو قتل کرنے سے پہلے اس سے کلمہ پڑھوایا گيا وغیرہ۔ اس نے اس پورے کاروکاری کے کلچر یا نام نہاد غیرت کے تصور کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ اس تحقیق و مطالعہ پر وہ خود لکھتی ہے کہ اپنے اس موضوع کے ساتھ ملوث ہونے کے بجائے اس پر علمی، غیرجانبداری اور معروضیت پسندی کے ساتھ برتا ہے اور کئی برادریوں کے درمیان امن بھی قائم کروایا ہے۔
نفیسہ نے کاروکاری قتل اور ان کے پیچھے قبائلی اور ذات برادریوں کے ’’قومی خونریزیوں‘‘ کے لالی ناریجو سمیت کئی کیسوں کو مطالعے کے طور پر پیش کیا ہے جب اسکا اپنا ضلع ایسی قبائلی اور برادریوں کے مابین خونریزیوں کا مرکز تھا شاید اب بھی ہو۔ ایسے کیسوں میں حکومتی انتظامیہ اور وڈیروں، سرداروں، اور چنگوں مڑسوں (بھلے مانسوں)، تھانے کچہری کے کردار اور لواحقین کے حصے کو افشا کیا ہے۔
یہ کتاب اس نے اپنی ماں حسن افروز کے نام کی ہے۔ نفیسہ اور اس کی ساری بہنوں بھائیوں کی پڑھائی اور تربیت کے پیچھے زیادہ ہاتھ اسی خاتون کا تھا۔ والد تو سیاست میں ہمیشہ روپوش یا پھر جیل میں ہوتے تھے اس وقت۔ کبھی ریل میں کبھی جیل میں۔ کاش جلد اس کتاب کا کوئی سندھی اُردو اور ملک کی دیگر زبانوں میں ترجمہ کرے۔

.
تازہ ترین