• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں جب سجاد میر، رؤف طاہر اور جاوید نواز کے ہمراہ مرحومہ بانوقدسیہ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے ماڈل ٹاؤن جا رہا تھا، تو بانو آپا کے ساتھ ملاقاتوں کی کہکشاں جھلملانے لگی اور جو تاثر اُن سے پہلی ملاقات میں پیدا ہوا، بعد تک قائم رہا۔ ایک باوقار اور عظیم خاتون جو اپنی ذات کی نفی اور دوسروں کی شخصیت کی تعظیم میں کمال رکھتی تھیں۔ میں اُن سے پہلی بار 1963ء میں جناب اشفاق احمد خاں کے ہمراہ ملا تھا۔ ان دنوں وہ سمن آباد میں رہتے تھے اور ’داستان گو‘ نکال رہے تھے۔ اسی بستی سے ہم نے تین سال پہلے ’اُردو ڈائجسٹ‘ جاری کیا تھا۔ اشفاق صاحب کی رہائش گاہ کے سامنے بہت بڑا پارک تھا جس میں صبح کی سیر کرنے بہت سارے لوگ آتے تھے۔ میری اسی پارک میں جناب غلام مصطفیٰ تبسم سے ملاقات ہوئی تھی اور جناب پروفیسر ایم اے ملک سے بھی جو دست شناسی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ جناب اشفاق احمد سے راہ گزرتے دعا سلام ہو جاتی۔ داستان گوئی میں اُن کا طوطی بولتا تھا، جبکہ مجھے صحافت میں آئے چند ہی سال ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ خاں صاحب کی شخصی وجاہت کا سامنا کرنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی تھی۔ ایک روز مجھے بانوقدسیہ سے اُردو ڈائجسٹ کے سالنامے کے لیے تازہ کہانی لینے کا خیال آیا، چنانچہ یہ معلوم کر لینے کے بعد کہ اشفاق صاحب گھر پر ہیں، میں نے گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔ چند ساعتوں بعد خاں صاحب باہر آئے اور بڑی شفقت سے ڈرائنگ روم میں لے آئے۔ اُردو ڈائجسٹ کی دیر تک تعریف کرتے رہے کہ تم نے ادب کو عام آدمی تک پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے اپنی اہلیہ بانو کو آواز دی کہ دیکھو الطاف صاحب آئے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بھی آ گئیں۔۔۔ ایک شفیق اور مطمئن چہرہ۔ آواز میں تمکنت۔ میں نے اُن سے مدعا بیان کیا کہ سالنامے کے لیے آپ کی تازہ کہانی چاہیے۔ انہوں نے وعدہ کر لیا اور اُن کی تازہ کہانی مجھے وقت پر مل گئی۔
وقت کے ساتھ اشفاق صاحب کے ساتھ مراسم بڑھتے گئے۔ وہ سمن آباد سے ماڈل ٹاؤن آ گئے تھے اور ’داستان سرائے‘ آباد کر لیا تھا۔ اُن کے ہاں جانے کے متعدد مواقع ملے کہ وہ مجلسیں پسند کرتے تھے۔ میری وہاں جناب نوازشریف اور عمران خاں سے یادگار ملاقاتیں ہوئیں جن میں مستقبل کے منصوبے زیرِبحث آتے تھے۔ ایسے موقع پر بانوقدسیہ زیادہ تر خاموش رہتیں یا خواتین کے ساتھ الگ گوشے میں بیٹھ جاتیں۔ اشفاق صاحب جس قدر ہنگامہ خیزی کے دلدادہ اور تیز گفتار تھے، بانوقدسیہ اسی قدر کم گو اور فلسفیانہ سوچ کی مالک تھیں۔ یہ فیصلہ کرنا بہت دشوار تھا کہ میاں بیوی میں سے کون بڑا ادیب اور عظیم انسان ہے، مگر بانوقدسیہ نے اپنی پوری شخصیت کو اشفاق صاحب کے آگے سرنگوں کر کے عظمت کا انمٹ نقش ثبت کر دیا تھا۔ اُن کا طرزِ احساس اور اُن کا میلانِ طبع بڑا جداگانہ تھا اور انسانی رشتوں کے ساتھ نسبتیں بھی مختلف نوعیت کی تھیں، مگر دونوں مل کر اقلیمِ ادب کے بے تاج بادشاہ تھے۔ دونوں ہی نے افسانے، ڈرامے اور ناول لکھے، لیکن محترمہ بانوقدسیہ کا ’راجہ گدھ‘ عصرِ حاضر کا سدا زندہ رہنے والا ناول ہے۔ اِس میں بڑے مؤثر انداز میں بتایا گیا ہے کہ رزقِ حرام کا زہر خون میں اُتر کر پورے جسم کے اندر پھیل جاتا اور آدمی کو عبرت ناک انجام سے دوچار کر دیتا ہے۔ اس ناول کو اُن حلقوں میں پھیلانے کی ضرورت ہے جو اپنے پیٹ میں زیادہ سے زیادہ انگارے بھرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ بانوقدسیہ اپنی پاکیزہ فطرت، اپنی گہری بصیرت اور اس زندہ جاوید ناول کی بدولت ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہیں گی اور رزقِ حلال کے حق میں جو انہوں نے صدا بلند کی ہے، وہ ہمارے معاشرے میں ہرآن گونجتی رہے گی۔ اللہ اُن کی قبر پر شبنم افشانی کرے!
عالمِ حیرت و یاس میں مجید امجد کا شعر یاد آگیا ؎
روحِ عمر رواں تھے، کہاں گئے وہ لوگ
ابھی ابھی تو یہاں تھے، کہاں گئے وہ لوگ
ابھی کل کی بات ہے کہ روزنامہ جنگ کے شفیق مرزا سے ہر ہفتے فون پر بات ہوتی جو عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے عالم اور بڑے منکسر المزاج شخص تھے۔ وہ چند گھنٹوں ہی میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے انکسار کی عظمت ثبت کر گئے۔ دو چار ہفتوں بعد سید انور قدوائی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جو طلسماتی شخصیت کے حامل اور تاریخ کے بہت بڑے رازداں تھے۔ چند روز بعد جہانگیر بدر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے جو گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔ اُن کی سدا بہار شخصیت نے تمام سیاسی حلقوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھا، تو تصور میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں سے ملاقات ہو گئی۔ ضلع کرنال اور یوپی میں اُن کی بڑی جاگیریں تھیں۔ پاکستان بنا، تو انہوں نے اس وقت تک کے لیے اُن کا کلیم (claim)داخل کرانے سے انکار کر دیا جب تک ہر مہاجر کو اس کا کلیم نہیں مل جاتا۔ شہادت کے بعد جب شیروانی اُتاری گئی، تو نیچے سے پھٹی ہوئی قمیص اور پھٹی ہوئی بنیان برآمد ہوئے۔ یہ مملکتِ خداداد کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے بے لوثی، ایثارکیشی اور دیانت داری کی حیات آفریں مثال قائم کی تھی۔ یہ لوگ بہت دور چلے گئے ہیں، مگر تاریخ اُن کے عظمتِ کردار سے مہک رہی ہے۔
اور یہ امریکہ جس کی زمامِ اقتدار ڈونلڈ ٹرمپ نے سنبھالی ہے اور چند ہفتوں ہی میں ایک دنیا کو دہشت زدہ کر دیا ہے، وہ مذہبی آزادیوں اور عظیم امکانات کا ایک پُرامن ملک رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر کی آزادی اور قیامِ پاکستان میں امریکی قیادت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کے پہلے یومِ آزادی کی تقریب میں حصہ لینے کے لیے بہت بڑا امریکی وفد آیا تھا جبکہ سوویت یونین نے پاکستان کو استعماری طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے تقریب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پھر میں نے تصور میں دیکھا کہ جب پاکستان کے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں امریکی دورے پر گئے، تو امریکی صدر نے اپنی کابینہ کے ہمراہ اُن کا ایئرپورٹ پر استقبال کیا تھا۔ بعد ازاں امریکہ نے اپنی یونیورسٹیوں کے دروازے پاکستانیوں کے لیے کھول دیے اور تجربات کی دنیا میں اپنے جوہر دکھانے کے پورے مواقع فراہم کیے ہیں۔ ہماری فوج دنیا کی پانچویں بڑی فوج ہے جس نے بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس کی تشکیل میں امریکہ نے قابلِ قدر حصہ لیا ہے۔
جناب صدر ٹرمپ! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ سات مسلم ملکوں پر سفری پابندیاں عائد کرکے آپ نے پورے امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے حق میں ہمدردی کی زبردست لہر اُٹھا دی ہے۔ امریکی ادارے، وکلا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عدالتیں امریکی اعلیٰ اقدار کا قدم قدم پر تحفظ کر رہی ہیں۔ ایک ایگزیکٹو آرڈر نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا جو نائن الیون کے المیے سے پیدا ہوئی تھی، اُسے بے پایاں محبت میں تبدیل کر دیا ہے۔ شر سے خیر کے چشمے اُبلتے دکھائی دے رہے ہیںاور ایسے میں امریکی قائدین تھامس جیفرسن، واشنگٹن اِروِنگ، جیمز میڈیسن اور ہملٹن یاد آتے ہیں جنہوں نے امریکی دستور کی فکری بنیادیں اُٹھائی تھیں۔ تھامس جیفرسن نے اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے قرآنِ حکیم سے بھی استفادہ کیا تھا۔ وہ نسخہ آج بھی نیشنل لائبریری میں موجود ہے۔

.
تازہ ترین