• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ ببن میاں ایک بات تو بتائو!‘‘
’’بولو!‘‘
’’انسان کو نہانے میں کتنی دیر لگتی ہے؟‘‘
’’یہی کوئی پانچ سات منٹ!‘‘
’’کئی لوگ ایک ایک گھنٹے تک نہاتے رہتے ہیں، یہ کیا چکر ہے؟‘‘
’’آج سے ہزاروں سال پہلے کا جو انسان تھا، وہ ان دنوں اپنی ا پنی ان تمام دبی ہوئی خواہشات کی تکمیل کررہا ہے جن کی تکمیل پتھر کے زمانے میں ممکن نہیں تھی۔ اس زمانے میں جو لوگ دریا کے کنارے رہتے تھے، وہ جی بھر کر نہاتے تھے، جنہیں دریا کا کنارہ میسر نہیں تھا، وہ نہانے کے لئے ترستے رہتے۔ تمہارے اور میرے جو دوست گھنٹہ گھنٹہ بھر نہاتے رہتے ہیں ان کے آبائواجداد کا مسکن یقیناً دریا سے کہیں دور واقع تھا، تاہم اس کی ایک وجہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان کی پیدائش پانی میں ہوئی تھی، چنانچہ وہ اپنی’’جائے پیدائش کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتا ہے‘‘
’’اور یہ جو لوگ بڑے بڑے مکان بناتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘۔
’’اس کی وجہ بھی وہی ہے جو میں نے ابھی بیان کی ہے، پتھر کے زمانے میں لوگ غاروں میں رہتے تھے۔ اب وہ بڑے بڑے گھر بنا کر اپنی دیرینہ محرومی دور کررہے ہیں!‘‘
’’اور یہ جو ہم لوگ روزانہ شیو کرتے ہیں، کیا یہ کوئی شریفانہ عمل ہے کہ انسان اپنی صبح کا آغاز تیز دھار والا بلیڈ ہوا میں لہراتے ہوئے کرے؟‘‘
’’تمہیں کس نے کہہ دیا کہ انسان ایک شریف مخلوق ہے، ارے میاں یہ بہت خونخوار جانور ہے۔ ہزاروں سال پہلے یہ جس درندگی کا مظاہرہ کرتا تھا ان دنوں اس سے کہیں بڑھ کر کررہا ہے۔ یہ جو لوگ روزانہ اپنی صبح کا آغاز بلیڈ ہوا میں لہرا کر کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو یہ بلیڈ کسی دوسرے کی گردن پر چلانے کا حوصلہ نہیں رکھتے لیکن اپنے آبائواجداد کی روایات کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے وہ روزانہ علی الصبح تیز دھار والا بلیڈ علامتی طور پر ہوا میں لہراتے ہیں اور پھر کسی کی گردن کاٹنے کی بجائے صرف اپنے بال کاٹنے پر اکتفا کرتے ہیں!‘‘
’’کیا بات ہے ببن میاں تمہاری ،اب یہ بھی بتائو اکثر انسانوں کی کمر میں درد کیوں رہتا ہے؟‘‘
’’بھئی!درد کمر کی وجہ کثرت گناہ یا حسرت گناہ ہے، تاہم اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ انسان ہزاروں سال پہلے چوپایوں کی طرح دونوں ہاتھوں اور دونوں پائوں پر چلا کرتا تھا، کیونکہ بنیادی طور پر یہ چوپایا ہی تھا، سو اس کی کمر ڈیزائن ہی اس طرح کی گئی تھی کہ اس پر کم سے کم بوجھ پڑے مگر پھر یہ انسان ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھ گیا اور اس نے اپنے ہاتھ چلنے کی بجائے ہاتھ مارنے کے لئے ا ستعمال کرنا شروع کردئیے مگر کمر کا بنیادی ڈیزائن وہ وہی پرانا تھا چنانچہ اس پر بوجھ پڑنا شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی کمر کا درد بھی شروع ہوگیا۔ تم نے دیکھا نہیں بچے جو فطرت کے بہت قریب ہوتے ہیں، آج بھی چوپایوں کی طرح چلتے ہیں، وہ اگر ہم بڑوں کو دو ٹانگوں پر چلتا نہ دیکھیں تو وہ ساری عمر اسی طرح ’’کرالنگ‘‘(Crawling)کرتے رہیں‘‘
’’ببن میاں تم بہت عجیب باتیں نہیں کررہے؟‘‘
’’یہ تو کچھ بھی نہیں، کیونکہ ابھی تم کہو گے کہ میں عجیب نہیں عجیب و غریب باتیں کررہا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے انسان اندھیرے سے خوف کیوں کھاتا ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’تو پھر سنو!بات یہ ہے کہ انسان جب غاروں میں رہتا تھا، تو اسے ہر وقت جنگلی جانوروں سے جان کا خطرہ ہوتا تھا۔ دن کی روشنی میں تو وہ انہیں دیکھ سکتا تھا اور یوں اپنے بچائو کا انتظام کرلیتا تھا لیکن رات کو انجانے دشمن کا خوف اسے بے چین رکھتا تھا، چنانچہ جوں جوں اندھیرا پھیلنے لگتا تھا اس کے اندر خوف جنم لینے لگتا تھا، چنانچہ یہ اندھیرے سے خوف کا’’تحفہ‘‘ بھی ہمیں اپنے آبائواجداد سے ملا ہے!‘‘
ببن میاں تم تو خاصے پڑھے لکھے آدمی ہو پھر یہ ببن میاں ایسا عوامی نام تم نے کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘
’’تم تو جانتے ہی ہو،نام میرا فہیم صدیقی ہے، لوگ مجھے پیار سے ببن میاں کہتے ہیں اور مجھے یہ اچھا لگتا ہے کیوں کہ ایسے نام ثقافتی پس منظر رکھتے ہیں‘‘
’’کیا بات ہے تمہاری فہیم صدیقی المعروف ببن میاں‘‘
’’تمہیں ایک اور بات بتائوں؟‘‘
’’بتائو‘‘
’’ہزاروں سال پہلے کے انسان کے جو ڈھانچے ملے ہیں ان کے کیمیائی تجزیوں سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ پرانے انسان کی دور کی نظر تیز تھی اور قریب کی نظر کمزور تھی۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس کی کیا وجہ تھی؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’اس کی وجہ یہ تھی کہ پرانے انسان کو دور سے آتے ہوئے اپنے شکار یا دشمن پر نظر رکھنا پڑتی تھی، چنانچہ نظر کے اس مسلسل استعمال سے ا س کی دور کی نظر بہتر ہوگئی اور اس کی قریب کی نظر اس لئے کمزور تھی کہ اسے اخبار نہیں پڑھنا ہوتا تھا‘‘
’’گویا آپ جس چیز کا استعمال زیادہ کریں گے، اس کی کارکردگی زیادہ بہتر ہوگی‘‘۔
’’بالکل یہی بات ہے، تم دیکھ لو ہماری قوم کے افراد بے تحاشا جھوٹ بولتے ہیں، چنانچہ اس میدان میں ان کی کارکردگی سیاستدانوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے‘‘۔
’’ببن میاں آخر میں میرا ایک اور خلجان دور کرو اور وہ یہ کہ تم نے میرے دس ہزار روپے دینے ہیں! تم کئی دفعہ ان کی واپسی کا وعدہ کر چکے ہو مگر تم نے آج تک یہ پیسے واپس نہیں کئے، تم ایسا کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’یار اس کی وجہ اور کوئی نہیں سوائے اس کے کہ میں بھول جاتا ہوں کہ میں نے تمہارے پیسے دینے ہیں‘‘۔
’’تم نے آج بہت پتے کی باتیں کیں، اس گفتگو کے آخر میں ایک پتے کی بات میں بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ انسان کا حافظہ کمزور نہیں ہوتا، چنانچہ بقول فرائیڈ اسے سب کچھ یاد رہتا ہے، وہ صرف وہی کچھ بھولتا ہے جو وہ بھولنا چاہے۔ تم بھولنا چاہتے ہو کہ تم نے میرے دس ہزار روپے دینے ہیں مگر ببن میاں، میں تمہیں بھولنے نہیں دوں گا.......پیسے نکالو!‘‘
(وضاحت:گزشتہ کالم میں میں نے بانو آپا کے جس بیٹے کا ذکر کیا تھا اس کا نام انیق نہیں اسیر ہے، انیق امریکہ میں مقیم ہے)

.
تازہ ترین