• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت آ گیا ہے کہ کراچی کو درپیش بے انتہا مشکلات اور مسائل کے حل کی تلاش سیاسی مفادات حاصل کرنے کے بجائے اس کےجغرافیائی، ماحولیاتی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ آج کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں نہ فقط پاکستان کے سارے صوبوں کے لوگ آباد ہیں مگر اس ریجن کے کئی ملکوں کے غیر قانونی شہری بھی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔ کسی زمانے میں کراچی مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ایک مرحلے میں کراچی کے اس سمندری کونے میں پتہ نہیں کہاں سے ایک بہت بڑا مگرمچھ آ گیا۔ اس مگرمچھ کی وجہ سے اکثر مچھیروں نے سمندری مچھلی پکڑ کر روزگار تلاش کرنے کا سلسلہ بند کر دیا۔ اس مگرمچھ سے لڑائی میں کراچی کی اس چھوٹی سی بستی کے کئی مچھیرے مگرمچھ کے حملوں میں شہید ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان مچھیروں کے ایک خاندان کو ہوا۔ اس خاندان میں سات بھائی تھے۔ مگرمچھ سے لڑتے ہوئے چھ بھائی لقمہ اجل ہو گئے، باقی سب سے چھوٹا بھائی جس کا نام ’’مورڑو میر بحر‘‘ تھا وہ زندہ بچ گیا۔ مورڑو بہت ذہین اور بہادر تھا، اس نے ایک لوہے کا پنجرہ بنوایا جس کے چاروں اطراف تیز دھار والے لمبے چھرے لگے ہوئے تھے۔ ایک دن مورڑو اس پنجرے میں داخل ہوا، اس کے ہاتھوں میں بھی بڑی تیز تلواریں تھیں۔ اس نے ساتھی مچھیروں سے کہا کہ وہ اس سمت اس آہنی تیز دھار تلواروں والے پنجرے کو سمندر میں پھینک دیں۔ سمندر میں یہ پنجرہ اور اس کے اندر موجود ایک انسان کو دیکھ کر یہ مگرمچھ اس پنجرے پر حملہ آور ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ تیز دھار والے اس پنجرے سے مگرمچھ کی یہ لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی، آخر میں مگرمچھ لہولہان ہو کر سمندر میں گر پڑا اور زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ اس خونی مگرمچھ کے شکار کے بعد ہی کراچی وسیع پیمانے پر آباد ہونا شروع ہوا۔ آج کچھ لوگ کراچی کو ’’میرا کراچی‘‘ تو کچھ ’’منی پاکستان‘‘ کہتے ہیں۔ ٹھیک ہے مگر کیا ہمارے ان جیالوں نے مناسب سمجھا کہ کراچی میں مورڑو میر بحر کی ایک عالی شان یادگار بنا کر اس شخص کو خراج تحسین پیش کیا جائے جو حقیقی معنوں میں اسی کراچی کا ’’بانی‘‘ہے۔ کراچی کے ہمارے ان جیالوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ کراچی کی پرانی تاریخ سے بھی واقفیت حاصل کریں۔ آج ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ کراچی، پاکستان کی سب سے زیادہ لبرل سوسائٹی کا وجود قائم کئے ہوئے ہے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے مگر کیا ہمارے ان مہربانوں کو علم ہے کہ کراچی تو صدیوں سے لبرل سوسائٹی کا وجود قائم کئے ہوئے ہے۔ یہ مغلوں کے دور کی بات ہے کہ کراچی کے دیہاتی علاقے میں ایک خاتون جس کا نام ’’موکھی‘‘ تھا کا ایک جھونپڑی نما چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا جس میں لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے کچھ وقت کیلئے رک کر کچھ کھا پی کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ موکھی کا ذکر سندھ کے قومی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی کیا ہے۔ یہ بات بھی کم اہم نہیں ہے کہ اس دور میں مغلوں کی مدد سے ارغون اور ترخانوں نے سندھ کے ایک حصّے پر قبضہ کر کے ان میں سے کچھ نے سیہون کو اپنا مرکز بنا لیا تھا تو کچھ نے ٹھٹھہ کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا۔ اس دور میں ارغون اور ترخان سامراج کے خلاف سندھ کے عوام نے مخدوم بلاول کی قیادت میں گوریلا جنگ شروع کر رکھی تھی۔ موکھی کے اس ریسٹورنٹ میں رات کے وقت ایک خاص ٹیم وقفے وقفے سے آ کر رکتی تھی اور کھا پی کر اپنی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو جاتی تھی۔ شاہ لطیف نے اپنے اشعار میں ان نوجوانوں کو ’’متارا‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ سندھی زبان میں ’’متارو‘‘ بہادر کو کہا جاتا ہے۔ اس ایشو پر وسیع تحقیق کی ضرورت ہے مگر ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ ’’متارے‘‘ گوریلا جنگجو تھے جو ٹھٹھہ کے سامراج کے خلاف گوریلا جنگ کی قیادت کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک رائے یہ بھی آئی ہے کہ اس دور میں سیہون اور ٹھٹھہ پر قبضہ کئے ہوئے ارغون اور ترخان سامراج کے خلاف سندھ کے نوجوانوں کی طرف سے شروع کی گئی گوریلا جنگ میں کراچی ان نوجوان گوریلوں کی ایک اپنی پناہ گاہ تھا مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کراچی جہاں سامراج کے خلاف گوریلہ جنگ کا ایک اہم مرکز تھا وہیں کراچی چونکہ سندھ کی جان، جگر اور چہرہ کے طور پر دنیا بھر میں مشہور رہا ہے لہٰذا یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی بھی صوفی ازم، لبرل ازم کی علامت بنا ہے جہاں نسل پرستی اور دیگر تعصّب کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ لہٰذا آج بھی کراچی ثقافتی طور پر آگے بڑھ سکتا ہے۔ شہر کا ایک مختلف طبقہ جو کراچی کو ’’میرا کراچی‘‘ کہتے ہیں، کو بھی نسل پرستی اور ہر قسم کے تعصّب سے قطع تعلق کرنا پڑے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کراچی جب چھوٹا سا قصبہ تھا تو اسے ہر سال سندھ کےشاہکار بلدیاتی ادارے جن میں اس وقت خاص طور پر کیٹی بندر میونسپیلٹی کافی مشہور تھی، بڑی بڑی مالی گرانٹس دیتے تھے۔ اس رقم سے کراچی کی شاہ راہیں اور دیگر عمارات تعمیر ہوئیں مگر اس وقت کراچی سے جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ تاریخ کا کبھی بھی روشن باب نہیں کہلایا جا سکے گا۔ سندھ کے عوام نے پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے بھائیوں کیلئے نہ فقط کراچی مگر سندھ کے ہر شہر اور گائوں حتّیٰ کہ اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے تاکہ ان کیلئے حالات کو آسان بنایا جا سکے مگر جب 2010ء اور 2011ء میں سندھ کے بیشتر علاقوں میں سیلاب اور خطرناک بارشوں کے نتیجے میں ہزاروں لوگ سندھ بھر سے بے گھر ہوئے تو ان میں ایک بڑی تعداد کراچی اور حیدرآباد آئی تاکہ ان کے رہنے کیلئے کچھ انتظامات کئے جا سکیں۔ ساری دنیا نے یہ مظاہرہ دیکھا کہ یہ لوگ اپنی خواتین اور بچّوں سمیت سپر ہائی وے کے پاس چھوٹے پٹھے کے نیچے ایک لمبے عرصے تک وقت گزارتے رہے۔ شاید اب بھی ان میں سے کچھ لوگ وہاں ہیں۔ شروع میں سندھ کی پی پی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کیلئے کراچی میں کالونیاں بنا کر ان کو رہائش فراہم کی جائے گی، جس طرح پی آئی بی کالونی جیسی کالونیاں بنائی گئی تھیں مگر بعد میں سندھ کی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک ’’طاقتور‘‘ اتحادی پارٹی کا دبائو تھا۔ یہ تو 2010ء اور 2011ء کی بات ہے مگر اب بھی کراچی کے دیہاتی علاقوں میں جو سندھی رہ رہے تھے ان کو وہاں سے ہٹانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سندھ کے لوگ یہ سب کچھ صبر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کو توقع ہے کہ ان کے ’’بھائی‘‘ جلد محسوس کریں گے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ ایک طرف یہ رویّہ ہے دوسری طرف بغیر کسی منصوبہ بندی کے کراچی کو Horizantallyاور Vertically پھیلایا جا رہا ہے تاکہ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن یہاں آ کر رہیں جس کے نتیجے میں کراچی میں بے پناہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کو ایک وسیع خودکشی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔

.
تازہ ترین