جسٹس شیخ عظمت سعید کی علالت کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کے 5رکنی بنچ نے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے 3بچوں کے خلاف آف شور کمپنیوں کے بارے میں مقدمے کی سماعت ملتوی کر رکھی ہے۔ جونہی ڈاکٹرز معزز جج کو کلیئرنس دیں گے تو ان پٹیشنز پر کارروائی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ اس سے اگرکوئی فریق بھی بھاگنا چاہےتو بھاگ نہیں سکتا۔ فیصلہ ہو کر رہنا ہے۔اب ویسے بھی سماعت آخری مراحل میں ہے۔ ابھی تک کی ہونے والی کارروائی سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ جج صاحبان کسی نتیجے پر نہیں پہنچے کیونکہ ان کے سامنے پیش کیا جانے والا مواد ناکافی اور ناقابل اعتبار ہے۔ جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نے کئی ہفتے دلائل دیئے تو وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے جس سے شریف خاندان کو ملزم ٹھہرایا جاسکے۔وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں کے پیش کئے ہوئے کاغذات کے بارے میں جج صاحبان سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے جواب ابھی ان کے وکلا نے دینے ہیں۔کیا فیصلہ ہوتا ہے صرف5 رکنی بنچ کو ہی معلوم ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شاید ہی کوئی کیس ایسا ہو جس پر فریقین اور دوسرے سیاستدانوں نے عدالت کے باہر اتنا زیادہ بحث مباحثہ کیا ہو اور ’’فیصلے ‘‘ بھی سنا دیئے ہوں۔ اسی طرح بے لگام ٹی وی چینلز نے بھی بدترین صحافت کی تمام حدیں عبور کردی ہیں اورگزشتہ10 ماہ سے ہر روز اسکرینوں پر ’’سیاپا ‘‘کیا جاتا ہے اور وہی مخصوص 2درجن کے لگ بھگ چہرے ہیں جو دانش ورانہ پھل جھڑیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔
جب یہ طے ہے کہ عدالت نے ہر حال میں اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے تو اس پر بھلا فیتے کاٹنے کا اثر کیا ہو گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس بات میں رتی بھر بھی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت نے اربوں کھربوں کے بے شمارترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں جو کہ تیزی سے تکمیل کی طرف رواں دواں ہیں۔یہ بجلی، ہائی ویز اور موٹروے کے پروجیکٹس ہیں۔ وزیراعظم کا حق بنتا ہے کہ وہ ناصرف ان کے لئے فیتے کاٹیں ان منصوبوں کو جلد مکمل کرنے کے لئے ان کے وزٹ کریں اور ان کا کریڈٹ بھی لیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ محنت کا پھل ملنے کی خوشی ہے فیتے نہ کاٹیں تو کیا کریں بالکل بجا ہے۔ وہ یقیناً اس کارکردگی کو ہی 2018کے عام انتخابات میں کیش کرنا چاہتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہئے کیونکہ یہ صرف ان کی حکومت کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے کہ اتنی میگا ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاک چین اقتصادی راہداری جو ایک خواب تھا اب حقیقت بنتے نظر آرہاہے۔ آصف علی زرداری سی پیک کا کریڈٹ تو لیتے ہیں مگر انہیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ان کے دور میں ساری باتیں صرف کاغذوں تک محدود تھیں جبکہ کسی جگہ بھی کوئی بڑا پروجیکٹ شروع نہیں ہوا تھا۔ گوادر پورٹ پر کام کئی سالوں سے جاری ہے مگر اس میں جو تیزی موجودہ حکومت لائی ہے وہ بلاشبہ غیر معمولی ہے۔پاکستان میں جو بے مثال ترقی کے بڑے بڑے منصوبے چل رہے ہیں وہ صرف چین کی وجہ سے ہی ممکن ہوئے ہیں۔ لہذاہر وقت پاکستان اور ہماری قوم کو اس دوست کا تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہئے۔ کافی عرصہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کے باوجود بھی چین نے پاکستان پر مکمل اعتماد کیا اور پچاس ارب ڈالر سے زائد کے منصوبے شروع کئے ہیں۔ دنیا حیران ہے کہ پاکستان اتنی تیزی سے ترقی کر رہاہے اور کچھ ممالک سی پیک میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں اور پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ اس گرینڈ پروجیکٹ کے پارٹنرز بن جائیں اور اس سے مستفید ہوں۔
چونکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو وزیراعظم اور ان کی حکومت کی کوئی پالیسی یا فیصلہ ٹھیک نہیں لگتا لہذا وہ نوازشریف کے مختلف منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر فیتے کاٹنے کو بھی طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم چاہے جتنے مرضی فیتے کاٹ لیں انہیں عدالت عظمیٰ میں پاناما کیس کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا حالانکہ دونوں کام ساتھ ساتھ جاری ہیں وزیراعظم فیتے بھی کاٹ رہے ہیں اور سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ بھی لڑ رہے ہیں۔ عمران خان کے پاس اگر ان کی خیبر پختونخوا میں حکومت کے کوئی منصوبے ہیں تو وہ بھی ضرور فیتے کاٹیں اس سے ایک مثبت مقابلہ شروع ہو جائے گا بجائے اس کے کہ زبانی جمع خرچ سے اپنے مخالف پر حملے کرتے رہیں۔جہاں تک عمران خان کا بس چلا ہے انہوں نے بھی تو فیتے کاٹے جب انہوں نے پشاور اور کراچی میں کینسر اسپتال شروع کئے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات کے پی کی حکومت بھی انہیں مختلف منصوبوں کے فیتے کاٹنے کے لئے مدعو کرتی رہتی ہے۔ وہ یہ سب کچھ سیاسی فائدے کے لئے کر رہے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہئے کیونکہ سیاست میں ہوتے ہوئے ایسے ہی کیا جاتا ہے۔ویسے بھی اگلے انتخابات میں اب ایک سال کا عرصہ ہی رہ گیاہے اور الیکشن ایئر شروع ہو چکا ہے لہذا اس عرصے کے دوران وزیراعظم اور ان کی حکومت کے بہت سے اقدامات کا مقصد بھی لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ وہ ان کے لئے کیا کر رہی ہے جس سے ان کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی،کے پی میں پی ٹی آئی اور پنجاب میں ن لیگ بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق یہی کچھ کر رہی ہے۔ دنیا کے بہت سے نامی گرامی اداروں نے نوازشریف کی اقتصادی اور دوسری پالیسیوں کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سروے بھی یہ بتا رہے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ہیں جبکہ عمران خان کا دوسرا نمبر ہے۔ آصف زرداری کی پوزیشن اب بھی بہت ہی ناگفتہ بہ ہے اور 3سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ایک طرف وزیراعظم ہر وقت مختلف بڑے بڑے منصوبوں کی سخت مانیٹرنگ کر رہے ہیں کہ یہ جلد ازجلد مکمل ہوں تاکہ وہ 2018کے انتخابات میں لوگوں کو بتا سکیں کہ انہوں نے 5سال میں کیا کچھ کیا۔ دوسری طرف عمران خان ہیں جو یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نوازشریف کو نکال باہر پھینکے اور پی ٹی آئی سیاست میں چھا جائے۔ 2013کے عام انتخابات کے بعد پہلے2سال دھاندلی کو ایشو بنایا جب عدالتی کمیشن نے ان کے تمام الزامات رد کر دیئے تو ان کے پاس سیاست کے لئے کچھ نہیں بچا تو پھر اچانک اپریل 2016میں پاناما اسکینڈل آگیا تو عمران خان کی ساری سیاست اس کے گرد گھومنا شروع ہوئی اور یہ اگلے الیکشن تک اسی پر ہی رہے گی عدالت عظمیٰ جو مرضی فیصلہ کرے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان اگلے انتخابات میں ووٹ کس کارکردگی پر مانگیں گے ؟ کیا وہ صرف یہی کہیں گے کہ انہوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے، دھرنے دیئے،اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کی کوشش کی اور پاناما کیس لڑا؟ کیا یہ سب کچھ ووٹ لینے کے لئے کافی ہو گا ؟ اس کا جواب صرف وہی دے سکتے ہیں۔
.