• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شکیل آفریدی کا معاملہ پھر سر اٹھانے لگا ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد قوم کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جس طرح حکومت پاکستان نے امریکی دبائو پر حافظ محمد سعید کو نظر بند کیا ہے۔ اب نئی امریکی حکومت کو خوش کرنے کے لئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی آئندہ آنے والے دنوں میں امریکہ کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ عافیہ صدیقی امت مسلمہ کی آبرو اور پاکستان کی قومی غیرت کی علامت ہے۔ گزشتہ14سال سے ان کے ساتھ اب تک امریکی قید میں ہونے والاوحشیانہ سلوک ناقابل بیان ہے۔ امریکی جیل میں وہ اس وقت 86سال کی ظالمانہ اور سفاکانہ سزا بھگت رہی ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان پر استغاثہ جرم ثابت نہیں کرسکا تھا لیکن اس کے باوجود امریکی معتصب جج نے عدل و انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پابند سلاسل کرنے کا حکم دیا۔ المیہ یہ ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما نے بھی گزشتہ ماہ جنوری میں وائٹ ہائوس سے اپنی رخصتی سے قبل سینکڑوں قیدیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا ہے۔ امریکی حکام نے اس سلسلے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر پاکستانی حکومت اوباما سے ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے خط لکھ دے تو ان کی رہائی فوری طور پر عمل میں آسکتی ہے۔ مگر افسوس کہ نوازشریف حکومت نے یہ سنہری موقع ضائع کردیا اور عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے خط نہ لکھا۔ ماضی میں بھی تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو تو امریکہ کے حوالے کردیا گیا لیکن اس کے بدلے میں ہمارے حکمرانوں کو عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپس لانے کی توفیق نہ ہوئی۔ انہی کالموں میں پہلے بھی کئی بار اس اہم اور قومی مسئلے پر میں نے آواز اٹھائی تھی۔ اب حکمرانوں کاضمیر جھنجھوڑنے کے لئے پھر عرض کررہا ہوں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے کو ڈاکٹرعافیہ صدیقی سے الگ رکھ کر دیکھا جائے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اُسامہ بن لادن کو گرفتار کرانے کے لئے پولیو مہم کی آڑ میں قومی خود مختاری اور وقار کا سودا کیا تھا۔ اُس کاجرم ناقابل معافی ہے۔ اُسے کسی بھی قیمت پر امریکہ کو نہیں دینا چاہئے بلکہ پاکستانی عدالتوں میں اُس کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ اس وقت امریکی اور پاکستانی میڈیا میں شکیل آفریدی کو امریکہ بھجوانے کی جو خبریں گردش کر رہی ہیں اگر وہ واقعی درست ثابت ہوئیں تو یہ اقدام ملک وقوم سے سنگین مذاق کے مترادف ہوگا۔ پاکستانی قوم ایسے کسی بھی فیصلے کو قبول نہیں کرے گی۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس ضمن میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت اور اہم انکشافات پر مبنی اپنا خط مجھے بھجوایا ہے جسے قارئین کرام آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
محترمی و مکرمی محمد فاروق چوہان صاحب،
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے صدر اوباما کو محض ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں پوری پاکستانی قوم کس طرح دکھ اور اذیت سے گزری ہے۔ ابھی حکومت کی اس نااہلی اور غفلت کی ہرسمت سے مذمت کی جا رہی تھی کہ امریکی میڈیا سے یہ خبریں آنا شروع ہوئی ہیں کہ حکومت پاکستان غدار وطن شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ ان خبروں پر پوری پاکستانی قوم میں ایک مرتبہ پھر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی طرح شکیل آفریدی کو بھی امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے عدالتوں کا سہارا لینے کی سازش کی جارہی ہے۔ بدنام جاسوس اور پانچ انسانی جانوں کے سرعام قتل کے مجرم ریمنڈ ڈیوس کو بھی عدالتی شیلٹر کے ذریعے امریکہ کے حوالے کیا گیا اور اب غدار وطن شکیل آفریدی کو بھی عدالتی چھتری کے ذریعے امریکہ کے حوالے کرکے ملک و قوم کو دھوکا دینے کی ایک اور کوشش کی جارہی ہے۔ اس معاملے کا چیف جسٹس آف پاکستان فوری نوٹس لیں۔ ایک امریکی نیوز چینل کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھول گئی ہے اور حکمران ذاتی مفادات کے تابع ہو گئے ہیں۔ شکیل آفریدی کے حوالے سے قوم کی متفقہ رائے ہے کہ وہ ملک دشمن ہے لیکن عافیہ صدیقی کے بارے میں پوری پاکستانی قوم یکسو ہے کہ وہ ناصرف بے گناہ ہے بلکہ اس کی واپسی سے قوم کا وقار بلند ہوگا۔ کئی پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس پر بھی ابتدا میں دہشت گردی، جاسوسی اور دیگر کئی سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے لیکن بعدازاں اسے محفوظ انداز میں ملک سے فرار کرا دیا گیا تھا۔ اب شکیل آفریدی کی بھی اس طرح رہائی ناصرف ملک بلکہ پاک فوج کے وقار کو بھی مجروح کرے گی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی شکیل آفریدی کو رہا کرنے کی ضرورت سے زیادہ بے تابی پاکستان کے قومی مفادات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ میڈیاکے توسط سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طارق فاطمی نے ہی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے وزیراعظم نواز شریف کو سابق امریکی صدر اوباما کو خط نہ لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ میں موقر اخبار ’’جنگ‘‘ میں آپ کے شائع ہونے والے کالم گردش ایام کے توسط سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور عافیہ کو وطن واپس لاکر قوم کا وقار بلند کریں۔ آج کے حکمرانوں اور ارباب اختیار نے آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر میرے وطن میں عجیب نظام رائج کررکھا ہے کہ یہاں محب وطن کو تو سولی پر چڑھایا جاتا ہے اور غدار وطن کو نوازا جاتا ہے۔ میری سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی اپیل ہے کہ قوم کی بیٹی کی جلد از جلد رہائی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم بار بار یہ بات صدر مملکت، وزیر اعظم، متعلقہ وزارتوں کو خطوط لکھ کر اور میڈیا کے توسط سے سامنے لا چکے ہیں کہ عافیہ کی رہائی صرف ایک خط کے ذریعے ممکن تھی لیکن حکومت نے خط نہیں لکھا۔ اب حکومت ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بلاوجہ رہا کر رہی ہے۔ میں یہ واضح کردینا چاہتی ہوں کہ عافیہ کو وطن واپس لانے میں ناکامی پر2018 ء کے انتخابات میں عوام حکمرانوں کا کڑا احتساب کریں گے اور اب جو بھی ووٹ مانگنے آئے گا عوام ان سے سوال کریں گے کہ بتائو تم نے عافیہ کو واپس لانے کیلئے کیا کیا؟ اگر حکومت نے عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا تو عافیہ موومنٹ عوامی تحریک شروع کرے گی۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پاکستانی حکومت اور سفارتخانے نے عافیہ کی واپسی کیلئے وہ کردار ادا نہیں کیا جو ادا کرنا چاہئے تھا ورنہ عافیہ پاکستان میں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کا معاملہ صرف میرا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ ملک کے وقار کی بحالی کیلئے حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل تمام سیاسی قیادت کو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے۔ اگر ملک میں غیرت مند لیڈر شپ ہوتی تو عافیہ 14سال سے امریکی قید ناحق میں نہ ہوتی بلکہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ اپنے وطن میں ماہر تعلیم ہونے کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں کی خدمت کررہی ہوتی۔
مجھے امید ہے آپ میری یہ گزارشات اپنے قلم کے ذریعے ارباب اختیار تک ضرور پہنچائیں گے۔
والسلام۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی


.
تازہ ترین