• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حساس موضوعات پر لکھنے میں چند در چند مشکلات پیش آتی ہیں۔ آرتھر کوئسلر نے کچھ ایسے ہی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ فنکار موضوع کا انتخاب کرتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے ۔ ’حقائق بالکل واضح ہیں ۔ اصولوں کا اطلاق ایسے ریاضیاتی طریقے سے ہو رہا ہے گویا کمان سے نکلے تیر سیدھے ہدف پہ بیٹھ رہے ہیں۔ میں اس آسانی سے لکھوں گا جیسے کھانا کھانے کے عمل کو بیان کیا جاتا ہے‘۔ دانشور لکھنا شروع کرتا ہے۔ سرے سے سرا الجھتا چلا جاتا ہے۔ لکھنے والے کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہوتا ہے۔ اس کا قلم موضوع کے دبائو سے ٹیڑھا ہونے لگتا ہے۔ داور حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ… دوسری طرف بہائو کے رخ پیراکی کے اپنے لطف ہیں ۔ ٹھنڈا صاف پانی بہہ رہا ہے۔ پایاب کناروں پر ہری گھاس ہے، چھتنار درختوں پر خوش رنگ پرندے ہیں۔ پرے کہیں بادل کا ٹکڑا روئی کے گالے جیسا آسمانوں میں تیرتا نظر آتا ہے۔ مقبولیت پسند قلم کارلہروں کے رخ پر ہاتھ پائوں چھوڑے ، ایک دیہاتی لڑکے جیسی مسرت کے ساتھ کسی بیہودہ گیت کے بول بے معنی آوازوں کے ساتھ منہ سے نکالتا چلا جاتا ہے۔ ’میں سچا ہوں، تم جھوٹے ہو۔ میں بہادر ہوں ،تم بزدل ہو‘۔ دانش اور رسوخ میں کشمکش کی کہانی پرانی ہے۔ سوئے ادب کا اندیشہ آڑے آتا ہے ورنہ اردو صحافت کی داستان کچھ ایسی بہجت افزا نہیں ۔ ایک طرف سرسید اور ان کے رفقا تھے۔ دوسری طرف السنہ شرقیہ کے شناور ، اودھ کے تعلقہ دار، تہذیب کے پتلے اور انگریزی تعلیم کے دشمن ۔ دریا نے ذرا رخ بدلا تو تحریک خلافت کے سب مخالف انگریز کے کاسہ لیس اور ٹوڈی ٹھہرے جب کہ حریت ، حمیت اور مفاد ملت پر ہمارا اجارہ ۔ کون پوچھے کہ تحریک خلافت سے مجلس احرار نے کیسے جنم لیا؟ زمیندار سے انقلاب کیسے برآمد ہوا؟ علامہ اقبال اور سکندر حیات میں کیا اختلافات تھے؟ پنجاب مسلم لیگ اور لیاقت علی خان میں کیا جھگڑا تھا۔ نیلی پوش تحریک کیا تھی؟ علامہ عنایت اللہ مشرقی کے بیلچے کا نشان مسولینی کے اٹلی اور لاہور کے ٹبی دروازے میں بیک وقت کیسے نمودار ہوتا تھا۔ سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی کہ خضر حیات ہمارے بھائی ہو گئے۔ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا ۔ ’کناروں پر بیٹھنے والے کبھی منجدھار میں تو آئیں‘۔ انہیں معلوم ہو کہ جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں، وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں۔عطاالحق قاسمی کے ایک کردار ببن میاں کو شکایت ہے کہ لوگ پرانی باتیں نکال لاتے ہیں ۔ قریب رکھا اخبار نہیں پڑھ سکتے۔ تو چلئے کچھ قریب کی باتیں دیکھ لیں۔ اکیسویں صدی کو کل ملا کر سولہ برس گزرے ۔ ہمارے ملک میں تاریخ کا یہ ٹکڑا تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پرویز مشرف کی آمریت ، پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ عہد اور مسلم لیگ نواز کی حکومت…
جیسا کہ ہم منظور شدہ نصاب کے پچھلے باب میں پڑھ آئے ہیں، اکتوبر 1999 ء میں نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کے ہاتھوں ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ ایسے میں کارگل کے فاتح نے کوس لمن الملکی بجایا اور چوہے اپنے بلوں سے نکل کر قطار اندر قطار آمریت کے سمندر میں داخل ہو گئے۔ چند شرپسند زنداں میں ڈال دئیے گئے اور باقی اہل وطن مٹھائی تقسیم کرنے نکل گئے۔ 11 ستمبر 2001 ء کی شام امریکہ میں دو بلند عمارتیں زمین بوس ہوئیں۔ یہی وہ تاریخ ہے جب پاکستان میں دو قوی الجثہ طاقتوں میں نادیدہ لڑائی شروع ہوئی۔ 2001 ء کے موسم خزاں میں ایک صاحب دانش اسلام آباد میں کہتا پھرتا تھا۔ابھی اور بہت کچھ ہوگاابھی ہوا کیا ہے۔ دہشت گردی مخالف جنگ میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑے ہونے میں پرویز مشرف کے اقتدار کی طوالت بھی پنہاں تھی اور معیشت کے مسائل بھی ٹالے جا سکتے تھے۔ چنانچہ آمریت نے پرانی پالیسی کو حسب ضرورت تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ نئے اور پرانے مفاد کا ٹکرائو ہوا ۔پیچیدگی یہ تھی کہ ایک پوری نسل بدخشاں ، جلال آباد کی فتوحات پڑھ کے جوان ہوئی تھی۔ یونانی المیے کا بحران بنا بنایارکھا تھا ۔ کرنا صرف یہ تھا کہ پرویز مشرف کو کمال اتاترک کا نام دے کر جدید اور قدیم کا جھگڑا اٹھایا جائے۔ سو ہم کچھ سادہ بیانات نکال لائے۔ ’پرویز مشرف نے قومی مفاد بیچ دیا ہے۔ اپنی حکومت بچانے کے لئے طالبان کی اسلامی حکومت سے غداری کی ہے۔ مدرسوں کی رجسٹریشن نہیں ہونے دیں گے۔ ہزاروں جذباتی نوجوانوں کو افغانستان لے جا کر مروانے والے صوفی محمد صاحب فقیر ایپی کی روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجاہدین پاکستان کے دوست ہیں۔ امریکہ پاکستان میں جہاد کی فصل کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے ۔ ہمیں غیروں کی خاطر اپنوں سے لڑائی نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان میں طالبان کا کوئی وجود نہیں۔ بس اسی سادہ نسخے میں پانچ برس گزر گئے۔ 2007 ء کے عبوری برس میں افتخار محمد چوہدری ، لال مسجد اور پرویز مشرف کا صدارتی انتخاب نمایاں رہے۔ البتہ چناب فارمولے پر کبھی جم کے بات ہی نہیں ہو سکی۔ ہم عدلیہ بچانے نکلے تھے ، بے نظیر بھٹو کی قربانی دے کر 2008 ء میں داخل ہو گئے۔
پیپلز پارٹی کے پانچ برس چند لفظوں میں سمیٹے جا سکتے ہیں۔ عدلیہ کی بحالی، این آر او کے ذریعے آمریت اور بدعنوان سیاست دانوں میں گٹھ جوڑ، کیری لوگر بل کے ذریعے قومی حمیت کا سودا ، سوئس بینکوں میں رکھے ساٹھ ملین ڈالر، امریکہ ڈومور کا تقاضا کرتا ہے اور میمو گیٹ اسکینڈل ۔ چھوڑئیے کہ سوات کا معاہدہ کس نے کیا؟ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن واقعی موجود تھا یا ڈرامہ رچایا گیا۔ پنجابی طالبان کا کوئی وجود تھا یا پنجاب حکومت کے خلاف سازش تھی؟ کیا ملک کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گردی ڈرون حملوں کا ردعمل تھی؟ پیپلز پارٹی کا عہد عملی طور پر 4 جنوری 2011 ء کو سلمان تاثیر کے قتل کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ بینظیر بھٹو اور سلمان تاثیر کے قتل میں ممکنہ تانے بانے کو نظر انداز کر دینا چاہئے کیونکہ ہمارا کام قوم کی ہمت بندھانا ہے۔ جنوری 2011 ء میں ہم نے سلمان تاثیر کو رخصت کیا اور اکتوبر 2011 ء میں عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا دریافت کیا۔
یہاں سے اگلی کہانی شروع ہوتی ہے۔ ’طالبان سے مذاکرات کیے جائیں ۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی (یہ پوچھنا منع ہے کہ دھاندلی کس نے کی تھی)۔ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کا حساب چاہئے۔ دہشت گردی کی فنڈنگ سیاسی قوتیں کر رہی تھیں۔ پاناما کیس کے فیصلے سے پاکستان کا مستقبل ایسے سنور جائے گا جیسے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی سے انصاف کا بول بالا ہو گیا تھا۔ حافظ سعید کی نظربندی کے احکامات واشنگٹن سے آئے ہیں ۔ کشمیر میں تحریک آزادی کی حمایت کرنے والوں نے پاکستان کی سرزمین پر کبھی دہشت گردی نہیں کی اور سو بات کی ایک بات یہ کہ ہم اپنی زمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اپریل 2014ء میں ایک معروف صحافی پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا ۔ اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر پر نہیں آ سکی البتہ بلند ا ٓہنگ نعرے لگانے والے اب دوسرے مورچوں پر چلے گئے ہیں۔ مہربان ٹھیک کہتے ہیں، سادہ بات کہنی چاہئے، دانشورانہ موشگافیوں سے قلم ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔

.
تازہ ترین