• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نامزدگی پر اخباری تبصروں اور جائزوں سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ آئین کی بالا دستی، جمہوریت کی کارفرمائی اور سول اتھارٹی کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں ۔ اور فوج کو انہی ذمہ داریوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جو اُس کے آئینی وقانونی فرائض میں شامل ہیں۔ آرمی چیف کو عہدہ سنبھالے تقریباً دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس عرصہ کے دوران اُن کے بارے میں اس تاثر کو تقویت ملی ہے۔ تشہیراور تصویر کے شوق سے بے نیاز،اُنہوں نے واقعتاً خود کو اپنی منصبی ذمہ داریوں تک محدود کر رکھا ہے ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سیاسی اور صحافتی سطح پر سول ملٹری تعلقات کے متعلق بے جا قیاس آرائیوں، جائزوں اور تبصروں کا جو طوفان بپا تھا، اُس میں خاصی کمی آ گئی ہے ۔
چند دن قبل آئی ایس پی آر کے نئے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کی پہلی میڈیا بریفنگ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ نپے تُلے انداز میں دی گئی بریفنگ میں بہت سے اہم معاملات کا احاطہ کیا گیا۔ فوجی عدالتوں میں توسیع ،حافظ سعید کی نظر بندی، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کاوشیں، کراچی اور بلوچستان میں امن عامہ کی صورت حال، ڈان نیوز لیکس اور ضرب عضب سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئیں۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے میڈیا کو مختلف معاملات پر ہونے والی پیش رفت سے متعلق معلومات فراہم کرنا معمول کی بات ہے۔تاہم آئی ایس پی آر کے نئے سربراہ کی طرف سے کہی جانے والی چند باتیں کئی برسوں سے جاری معمول سے ہٹ کر تھیں۔ مثال کے طور پر جہاں انہوں نے قومی سلامتی کے لئے افواج کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کی اہمیت بیان کی، وہیں قومی یکجہتی اور آئینی و جمہوری نظام کی مضبوطی کو بھی ضروری قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم (یعنی فوج) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا دفاع، سلامتی، ترقی و خوشحالی ہمارے باہمی اتفاق اور تمام ریاستی اداروں کی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ میڈیا بریفنگ کے دوران یہ بات خاص طور پرمحسوس کی گئی کہ جب کسی صحافی نے حافظ سعید کی نظر بندی سے متعلق سوال کیا۔ تو جنرل صاحب نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اسے ’’ریاست‘‘ کا فیصلہ قرار دیا ،جو کسی غیر ملکی دبائو پر نہیں بلکہ قومی مفاد میں کیا گیا تھا۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے آئین اور جمہوریت کی مضبوطی کی بات کرنا، کسی ایک ادارے کو قومی سلامتی، ترقی و خوشحالی کا ضامن قرار دینے کے بجائے، تمام ریاستی اداروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، پاکستان کے ہر شہری کو اپنے اپنے مورچے کاسپاہی کہنا، بہرحال غیر روایتی اور غیر معمولی باتیں ہیں۔ یہ مختلف لب و لہجہ اور طرز فکر فوجی قیادت کی نئی، مثبت اور انتہائی تعمیری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
اس امر سے انکار نہیں کہ ہمارے ہاں سول ملٹری تعلقات کبھی بھی قابل رشک نہیں رہے۔ حکومت اور فوج کے مابین تعلقات میں عدم توازن ، جمہوریت کے عدم استحکام اور عدم تسلسل کا باعث بھی بنتا رہا۔ ماضی بعید میںاس صورتحال کے محرکات کچھ بھی ہوں۔ البتہ ماضی قریب میں( اور شاید حال میں بھی) میڈیا کا ایک مخصوص حلقہ ایجنڈے کے طور پر فوج اور سول اتھارٹیز کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اور کافی حد تک کامیاب بھی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز کے تین سالوں میں نواز حکومت اپنی توجہ تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر مرکوز رکھنے کے بجائے، اپنے بچائو کے لئے ہاتھ پائوں مارتی رہی۔ اگرچہ اب صورتحال کافی بہتر ہے تاہم ایسے منفی عناصر اب بھی موجود ہیں اور کسی حد تک سرگرم عمل بھی ۔ انہی کے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر بے یقینی اور عدم استحکام کا تاثر دے کر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حساس معاملات پر قیاس آرائیاں ریاستی اداروں کے مابین فاصلے پیدا کرسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے ذمہ دار حلقوں اور تنظیموں کو ایسے غیرذمہ دارانہ عناصر کی گرفت کرنی چاہئے۔
میجر جنرل آصف غفور نے درست جانب توجہ دلائی ہے ۔ گزشتہ چند برسوں میں میڈیا ، خاص طور پر ٹی وی چینلز پر کچھ نام نہاد سیاسی و عسکری تجزیہ کار اور فوج کے خود ساختہ ترجمان ، قومی مفادات کے منافی پروپیگنڈاکرتے رہے ہیں۔ اب واقعتا اس کلچر کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ پریس کونسل اور پیمرا جیسے ریگولیٹری ادارے بروئے کار آئیں۔ خود اے پی این ایس ،سی پی این ای اور خاص طور پر پی بی اے جیسی موثر تنظیموں کو ایسے عناصر کی گرفت کرنی چاہئے۔ اگر صحافتی تنظیمیں اس حوالے سے ازخود عملی اقدامات کرتی ہیں تو اس سے میڈیا کی ساکھ اور وقار میں اضافہ ہوگا۔
اس وقت ملک میں یکجہتی کی جو فضادکھائی دے رہی ہے وہ نہ صرف قائم رہنی چاہئے بلکہ اسے مزید مستحکم بھی ہونا چاہئے۔ یہ ملک اور قوم کے لئے بھی اچھا شگون ہے اور جمہوری نظام کے لئے بھی خوش آئند ہے۔ خود حکومت کے لئے بھی یقینا یہ صورتحال اطمینان کا باعث ہے ۔ اب جبکہ ملک میں بے یقینی اور عدم استحکام کا تاثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کافی حد تک دبائو سے آزاد ہے ۔ عمران خان نے بھی توجہ سڑکوں پر احتجاج کے بجائے، عدالتی کارروائی پر مرکوز کر رکھی ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اپنی توجہ تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کی جانب مرکوز کرئے۔ لوگوں کی روز مرہ زندگی کے مسائل حل کرئے۔ اور اس بات کو یقینی بنائے کہ جمہوریت کے ثمرات عوام الناس تک پہنچیں۔
ایک آخری بات یہ کہ میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے آئین اور جمہوریت کی مضبوطی سے متعلق جو باتیں ہوئیں۔ وہ میڈیا کا موضوع نہ بن سکیں۔ یہاںتک کہ میڈیا کے سنجیدہ حلقوں نے بھی انہیں نظر انداز کر دیا۔ یہ طرز عمل اس بات کی دلیل ہے کہ میڈیا منفی باتوں کو تو رنگ وروغن دے کر خوب اچھالتا ہے ۔ لیکن مثبت اور تعمیری باتیں اس کے لئے قابل توجہ نہیں ہوتیں۔


.
تازہ ترین