• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی ہاں! آزادیٔ اظہار تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے اور ہمیں عزیز بھی! لیکن نفرت انگیزی اور توہین آمیزی، آزادیٔ اظہار نہیں، بلکہ آزادیٔ اظہار کی تدفین ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں آزادیٔ اظہار و خیال کیلئے جدوجہد کی گئی اور بے مثال قربانیاں دی گئیں۔ ہر نئے سچ، ہر نئی تحقیق، ہر نئی ایجاد اور ہر نئے مکتبِ فکر کو مذمت اور مزاحمت کا سامنا رہا اور بالآخر رجعت کو خوار ہونا پڑا۔ مگر کبھی ’’حقِ‘‘ نفرت انگیزی، فتنہ پردازی اور قتل و غارت گری کو انسانی تہذیب میں شرفِ باریابی ملا اور نہ مل سکے گا۔ اظہارِ نفرت (Hate Speech)، تعصب، عدم رواداری اور پُرتشدد اشتعال انگیزی (Incitement to Violence) کے نقیب کس منہ سے حقِ اظہار کی تذلیل کر سکتے ہیں؟ پچھلے کافی عرصہ سے متشدد انتہاپسندی کا کچھ ایسا غلغلہ مچا ہے کہ انسانی حقوق و آزادیوں کے پرچارک دبک کر رہ گئے ہیں اور پُرتشدد فسطائی اور دہشت گرد دہشت و بربریت کا بازار گرم کئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جو لوگ حقِ اظہار کے نام پر توہینِ مذہب اور رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شانِ بے کراں میں کسی بھی طرح کی تحریف کے مرتکب ہیں، وہ بھی نفرت انگیزی (Hate Speech) کے مرتکب ہیں اور وہ نفرتوں کو اُکسانے کے مجرم، اور قانون کے مطابق سزاوار، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی!آزادیٔ اظہار کے نام پر فرقہ پرستوں، متشدد انتہاپسندوں اور ٹیلی وژن پر نفرت و اشتعال کا بازار گرم کرنے والوںنے ایک نہایت خوفناک صورتِ حال پیدا کر دی ہے اور ہر طرف انتہاپسند بیانیہ چھائے جا رہا ہے۔ اور ہم ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بطن سے رواداری، انسان دوستی، امن پسندی اور روشن خیالی کے بیانیے کی تولید کے منتظر ہیں۔ ثناخوانِ آئین و قومی سلامتی کہاں ہیں؟
آزادیٔ اظہار کیلئے ہم نے کیسی کیسی صعوبتیں ہیں کہ برداشت نہیں کیں۔ حقِ اظہار اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے آفاقی اعلان نامے اور شہری و سیاسی حقوق کے عالمی عہد نامے میں اسے سب سے افضل مقام دیا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی متنبہ کیا گیا ہے کہ ’’کسی بھی طرح کی قومی، نسلی یا مذہبی نفرت کے پرچار کو جو تفریق، دشمنی یا تشدد پہ اُکسانے کا باعث بنے قانوناً ممنوع کیا جائے۔‘‘ دُنیا کے تمام جمہوری ممالک بشمول پاکستان کے آئین میں حقِ اظہار کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس حق پر مناسب حدود و قیود بھی لگائی گئی ہیں کہ اس حق کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کوئی شخص یا گروہ یا فرقہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف قومیت، رنگ و نسل، مذہب اور صنف کی بنیاد پر تعصب و نفرت پھیلا سکے اور نہ کسی کو کسی کے خلاف تشدد پہ اُکسا سکے۔ تشدد یا جہاد کی اجارہ داری صرف ریاست کو حاصل ہے اور جس کے استعمال پر آئین وقانون شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جو ریاستی اداروں کی ماورائے قانون حرکتوں کے احتساب کیلئے آزاد عدلیہ سے تحفظ مانگتے ہیں۔ جب عدلیہ ہی نفرت پھیلانے اور تشدد پہ اُکسانے والوں کو حکمِ امتناعی فراہم کرنے لگے تو شہریوں کا پھر اللہ ہی حافظ!پاکستان کے آئین میں بھی حقِ اظہار کو مانا گیا ہے اور اس پر ایسی قیود لگائی گئی ہیں کہ کوئی شخص، گروہ، میڈیا یا ادارہ کسی طرح کی تفریق، تشدد اور اشتعال انگیزی نہ پھیلا سکے۔ کسی کو کسی کے مذہب، مسلک اور نظریئے کی توہین کرنے، کسی کو کسی بنیاد پر نفرت انگیزی اور معاشرتی و اخلاقی بگاڑ اور انتشار پھیلانے کی آزادی نہیں۔ اسلام میں کسی کی دل آزاری، کسی کی تحقیر اور تفریق کی اجازت نہیں۔ ظالموں کو کسی طرح کا تحفظ نہیں اور محروموں، مظلوموں اور کمزوروں کیلئے ہر طرح کا تحفظ ہے۔ یہ قرآنی حکم ہے کہ کسی کے خدا کو بُرا نہ کہو کہ کہیں کوئی تمہارے اللہ کے بارے میں کچھ کہے اور اگر کوئی غلط بات سنو بھی تو اَن سنی کرتے ہوئے دور ہو جائو۔ دین میں جبر کو ردّ کرتے ہوئے، تمہارا دین تمہارے لئے اور ہمارا دین ہمارے لئے کا سبق دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ برحق کیا ہو سکتا ہے۔ رہے ہمارے سرورِ کائنات ﷺ، آپؐ تو تھے ہی مجسمِ رحمت اور رواداری!
یہ جو نفرت کا بیانیہ ہے تو کیا ہے؟ وکی پیڈیا (Wikipedia) کے مطابق ایک ایسا بیان جو کسی شخص یا گروہ کی اس کے رنگ و نسل، مذہب و مسلک اور صنف کی بنیاد پر بے توقیری، توہین اور مذمت کرے اور اس بنیاد پر کسی کو کسی کے خلاف تشدد پر اُکسائے، اُسے نفرت کا اظہاریہ کہتے ہیں اور دنیا کے ہر جمہوری آئین میں اس کی بندش ہے۔ امریکہ، فرانس اور دیگر جمہوری ممالک میں جہاں حقِ اظہار کی بہت توقیر کی گئی ہے، وہیں رنگ و نسل، مذہب، زبان اور صنف کی بنیاد پر ہر طرح کے تعصب و نفرت اور تحقیر و تفریق کی سختی سے ممانعت ہے۔ اسی بنا پر امریکی عدلیہ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے لگائی گئی سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی کو پہلی آئینی ترمیم کے تحت مسلمانوں سے نفرت پر مبنی تفریق قرار دے کر معطل کر دیا ہے۔ گویا اسلام ہو یا مغربی تہذیب، ان کے نزدیک اچھائیوں کو تحفظ ہے اور برائیوں کی ممانعت۔ دل پذیری کی اجازت ہے، دل شکنی کی ممانعت۔ عدم رواداری کی حوصلہ شکنی ہے اور رواداری و بردباری کی حوصلہ افزائی ہے۔ اور یہی انسانی تہذیب کا پر تو ہے، کیا مغرب کیا مشرق!!
آزادیٔ اظہار، آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ فکر جمہوری اور مہذب معاشروں کا چلن ہے۔ اور ان معاشروں اور ریاستوں کا فرض ہے کہ وہ اُن کی آبیاری کریں اور ساتھ ہی اُن کی بیخ کُنی اور غلط استعمال کو روکیں۔ آج بھی آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹنے کیلئے ہر طرح کی قوتیں متحرک ہیں جن کے خلاف چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ تکفیر کرنے والوں، تحقیر و نفرت پھیلانے والوں، فرقہ پرستوں، مذہبی و سیاسی انتہاپسندوں اور کسی بھی مذہب یا مسلک کی توہین کرنے والوں کو لگام دینے کی جتنی آج ضرورت ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ ریاست کے تمام اداروں بشمول پارلیمنٹ، عدلیہ و انتظامیہ اور سول و ملٹری قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے کیلئے بھرپور کوششیں جاری رکھیں، وہاں انتہاپسند بیانیے، نفرت اور تفریق کے اظہار، درسگاہوں اور میڈیا ہائوسز میں جاری اشتعال انگیزی اور فتنہ پروری کا سدِّباب کریں۔ اِس ضمن میں پاکستان کے چوٹی کے دانشوروں، ادیبوں، وکیلوں، صحافیوں اور سماجی و سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد نے ریاست کے تمام اداروں کے سربراہوں کے نام ایک پٹیشن پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پٹیشن میں جہاں بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی اور پھیلتی ہوئی فسطائیت پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، وہیں پہ استدعا کی گئی ہے کہ اس کی روک تھام کیلئے ہمہ طرف اقدامات کئے جائیں۔ خاص طور پر انتہاپسند بیانیے اور متشدد انتہاپسندی کے توڑ کیلئے ٹھوس اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں۔ جلد ہی یہ عرضداشت ریاست کے تمام اداروں کے سربراہوں کے سامنے پیش کی جائے گی۔ اس سے پہلے کہ ہم امن پسند، جمہوری، روادار انسان دوست لوگ خونِ دل میں انگلیاں ڈبونے پر مجبور ہو جائیں۔ آزادیٔ اظہار برحق، آزادیٔ نفرت نہیں!! فیض نے کیا خوب کہا ہے:
یہ کالک بھرتے پھرتے ہیں
وہ جوت جگاتے رہتے ہیں
یہ آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ آگ بجھاتے رہتے ہیں



.
تازہ ترین