• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض نعرے بظاہر بڑے دل خوش کن ہوتے ہیں لیکن اندر ایسا زہر چھپا ہوتا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایسا ہی ایک نعرہ قبائلی علاقہ جات کو الگ صوبہ بنانے یا پھر اس کے الگ تشخص کو برقرار رکھنے کا ہے جو ان دنوں ہمارے دو محترم سیاسی رہنمائوں نے اپنے محسن میاں نوازشریف کے اشارے پر بلند کیا ہے اور جس کے ذریعے بعض قبائلیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ الگ تشخص یہی تو ہے ناجو انگریز کے دور سے قبائلی علاقہ جات کو ملا ہوا ہے ۔ یعنی باقی ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت لیکن وہاں خیبرپختونخوا یا پھر پنجاب سے آئے ہوئے گورنروں اور ان کے نامزد پولیٹکل ایجنٹوں کی بادشاہت رہی ۔ کبھی امیر گلستان جنجوعہ کو ان کا بادشاہ بنایا گیا ، کبھی سردار مہتاب احمد خان عباسی کو اور اب پشاور کے اقبال ظفر جھگڑا کو ۔ جھگڑا صاحب آج تک اپنے گائوں میں یونین کونسل کا الیکشن نہیں جیت سکے لیکن پورے قبائلی علاقوں کے چیف ایگزیکٹو بن گئے ۔ ان نامزدگیوں پر نہ مولانا فضل الرحمان نے اعتراض کیا اور نہ محترم محمود خان اچکزئی کو قبائلی علاقوں کا الگ تشخص خطرے میں نظر آیا لیکن اب جب قبائلی عوام کے منتخب نمائندے شہاب الدین سالارزئی اور حاجی شاہ جی گل جیسے اپنے منتخب نمائندوں کی مرضی سے ، منتخب حکومت کی بنائی ہوئی سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارش کے مطابق ، قبائلی علاقوں کو پختونخوا کے ساتھ ضم کرنا چاہتے ہیں تو ان حضرات کو قبائلی علاقوں کا الگ تشخص یاد آگیا ۔باقی ملک میں آئین کے مطابق پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہے لیکن وہاں یہ اختیار پولیٹکل ایجنٹ کو حاصل ہے ۔ قبائلی نے کل اپنا فیصلہ خود کیا ہے اور نہ آج اپنے لئے خود کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔انضمام کی صورت میں جب قبائل کے منتخب نمائندے صوبائی وزیراعلیٰ اور وزیر بن کر خود حکمران بن جائیں گے یا پھر اپنے لئے فیصلے خود کرسکیں گے تو ہمارے ان دو محترم رہنمائوں کو قبائل کا الگ تشخص بے چین کررہا ہے ۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد جب محترم عبدالقادر بلوچ کو وہاں کے متاثرین کی بحالی کے عمل کا نگران بنایا گیا تو میں نے اعتراض اٹھایا۔ کالم بھی لکھے اور ٹی وی پر بھی بولتا رہا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں ۔ دلیل یہ تھی کہ جنرل بلوچ صاحب وزیرستان کے قبائلیوں کے حالات اور رسم ورواج سے واقف نہیں ۔ میں مطالبہ کرتا رہا کہ کسی قبائلی ایم این اے یا سینیٹر کو انچارج بنا دیا جائے ۔ وقت نے ثابت کردیا کہ بلوچ صاحب یہ کام بہتر طریقے سے نہیں کرسکے اور انہوں نے پورے عرصے میں صرف ایک دو بار متاثرین کے کیمپوں میں جانے کی زحمت گوارا کی ۔ یوں وہ متاثرین آج بھی خوار ہورہے ہیں ۔ تب قادر بلوچ صاحب کی تقرری پر نہ تو محترم مولانا نے اعتراض کیا اور نہ محترم اچکزئی صاحب نے ۔ اچکزئی صاحب کی طرح میرا تعلق بھی ایک ایسے قبیلے (مہمند ) سےہے جو سرحد کے آر پار منقسم ہے ۔ ان کا قبیلہ سالوں سے بلوچستان کے ساتھ ضم ہوچکا ہے ۔ ان کے اچکزئی بھائی الگ تشخص کے باوجود اپنا الگ تشخص رکھنے والے بلوچ سردار یعنی وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے خوشی کے ساتھ پنجاب کے میاں محمد نوازشریف کے ایماپر مری میں بیٹھ کر ،مکرانی بلوچ یعنی ڈاکٹر عبدالمالک کو چمن اور ژوب کے پختونوں کا حکمران مان لیا لیکن اب جب مہمند ایجنسی کا مہمند مردان اور چارسدہ کے مہمندوں کے ساتھ ، خیبرایجنسی کا شینواری اور آفریدی ، پشاور کے آفریدیوں اور شینواریوں کے ساتھ اور وزیرستان کا داوڑ ، محسود اور وزیر بنوں اور ڈی آئی خان کے اپنے ہم قبیلہ لوگوں کے ساتھ انتظامی طور پر ملنا چاہتا ہے تو یہ دونوں ہمارے الگ تشخص کی آڑ لے کر رکاوٹ ڈال رہے ہیں ۔ میرے دادا خیبرپختونخوا کے ضلع مردان منتقل ہوگئے جبکہ ان کے بھائی مہمند ایجنسی میں رہ گئے ۔ یوں آج میرے چچا، ماموں وغیرہ سب ہماری طرح پختونخوا کا حصہ ہیں جبکہ میرے والد کے چچا زاد بھائی وہاں پر رہ رہے ہیں ۔ ہمارے حصے کی تھوڑی سی زمین بھی وہاں پروہ سنبھال رہے ہیں کیونکہ قبائلی علاقوں کی اس الگ شناخت کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے ہم وہاں آزادی کے ساتھ نہیں جاسکتے ۔ قبائلی علاقوں کے اس الگ تشخص کی وجہ سے میرے والد کے کزنز اور ان کی اولاد بہت پیچھے رہ گئی جبکہ پاکستان میںانتظامی انضمام کی وجہ اور اس ملک کی برکت سے ہم سب بھائیوں پر اللہ نے بڑا کرم کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے قبیلے کے باقی لوگ بھی میری طرح ہوجائیں اور وہ بھی میرے ساتھ انتظامی طور پر ملنا چاہتے ہیں تو آخر اس پر مولانا صاحب کو یا اچکزئی صاحب کو کیوں تکلیف ہورہی ہے ۔قبائل کا اگر الگ صوبہ بنے گا تو وہ اچکزئی صاحب یا مولانا صاحب کا نہیں بلکہ میرے اور میرے خاندان کے لئے بھی بنے گا ۔ ان کا نہیں ، میرا ڈومیسائل مہمند ایجنسی کا ہے ۔ بہت تھوڑی سہی لیکن میں مہمند ایجنسی میں زمین کا مالک ہوں۔ دیگر قبائلیوں کی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ میرا الگ صوبہ ہو۔ میں پاکستان میں انتظامی بنیادوں پر چھوٹے صوبوں کا حامی ہوں اور ’’جرگہ‘‘ کے قارئین گواہ ہیں کہ ماضی میں اس کے حق میں کئی بار لکھ بھی چکا ہوں ۔ کل اگر انتظامی بنیادوں پر زیادہ صوبے بنتے ہیں تو پھر بے شک پختونخوا اور فاٹا میں بھی بنائے جائیں ۔ لیکن اس عمل میں لوگوں کا فائدہ اور انتظامی سہولت مدنظر ہونی چاہئے ، نہ کہ چند افراد کی خواہشات یا انائیں ۔ موجودہ قبائلی علاقہ جات ایک پٹی ہے جو افغان سرحد اور خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے درمیان میں باجوڑ سے وزیرستان تک چلتی ہے ۔ یہ آپس میں براہ راست کسی سڑک سے منسلک نہیں ۔ اگر باجوڑ کو مرکز بنایا جاتا ہے تو اس کی بنسبت وزیرستان والوں کے لئے پشاور بہت نزدیک ہے اور اگر وزیرستان کو مرکز بنایا جاتا ہے تو پھر باجوڑ اور دیگر پانچ قبائلی علاقوں کو پشاور نزدیک لیکن وزیرستان دور پڑ جاتا ہے ۔ قبائلی علاقوں کے مذکورہ الگ تشخص اور ظالمانہ نظام کی وجہ سے گزشتہ ستر سالوں میں قبائلی علاقوں میں ایک یونیورسٹی نہیں بن سکی جبکہ اس کے برعکس خیبرپختونخوا میں درجنوں یونیورسٹیاں ہیں ۔ صرف اے این پی کی حکومت میں درجنوں نئی یونیورسٹیاں بن گئیں ۔ ستر سال کی محنتوں کے بعد گزشتہ سال وفاقی حکومت نے قبائلی علاقوں کے لئے یونیورسٹی منظور کردی ۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ یونیورسٹی کہاں قائم کی جائے ۔ باجوڑ والے چاہتے تھے کہ یہ ان کے علاقے میں بنے ، مہمند والے اسے اپنی طرف لے جانا چاہتے تھے ، خیبر والے اسے اپنی طرح کھینچ رہے تھے جبکہ وزیرستان والے اپنی طرف ۔ سب کی تشویش بجا بھی تھی کیونکہ اگر خیبرایجنسی میں قائم ہوتی تو باجوڑ والوں کو پختونخوا کی ملاکنڈ یونیورسٹی نزدیک پڑتی اور اپنی فاٹا یونیورسٹی دور جبکہ وزیرستان والوں کو ڈی آئی خان کی گومل یونیورسٹی نزدیک پڑتی لیکن اپنی یونیورسٹی دور ۔ چنانچہ آخر میں تمام ایم این ایز اور سینیٹرز نے اس بات پر اتفاق رائے کرلیا کہ وہ یونیورسٹی ایک درمیانی جگہ یعنی قبائلی علاقوں کی حدود سے باہر خیبرپختونخوا کے شہر کوہاٹ میں بنائی جائے ۔ اب اگر محترم مولانا اور محترم اچکزئی صاحب کی تجویز کے مطابق قبائلی علاقہ جات کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو گورنر ہائوس سے لے کر وزیراعلیٰ ہائوس تک اور اسمبلی ہال سے لے کر صوبائی سیکرٹریٹ تک ہر معاملے پر یہی جھگڑے شروع ہوجائیں گے ۔
ابھی دہشت گردی کی جنگ سے قبائلی نکلے نہیں اور آپس کی ایک نئی اور خطرناک جنگ میں مبتلا ہوجائیں گے۔ گویا الگ صوبے کا نعرہ بظاہر تو دل خوش کن ہے لیکن مجھے تو یہ قبائلیوں کو لڑانے کی گھنائونی سازش لگتی ہے ۔ حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب اور حضرت محمود خان اچکزئی صاحب جرگوں کی بہت دہائی دیتے ہیں ۔ میری ان سے گزارش ہے کہ وہ قبائلی رہنمائوں کے جرگے بلا کر مذکورہ یونیورسٹی کی کسی قبائلی علاقے میں تعمیر پر اتفاق رائے کروا دیں ۔ اگر انہوں نے ایسا کردکھایا تو ہم پختونخوا کے ساتھ فاٹا کے انضمام کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں گے۔



.
تازہ ترین