• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الزام اس کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے! خطرہ صرف سرحدوں پر نہیں ملک میں چھپے دشمنوں سے بھی ہے، دہشت گرد اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، یہ بیان اگرچہ بظاہر معمول کا لگتا ہے لیکن جو وزیر محترم نے کہا وہ سچ ہے اور سچ کو دہرایا جاتا ہے، کہ اس کو بدلنے سے وہ جھوٹ کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے، کوئی مانے یا رد کرے مگر بہتری کی شروعات ذات سے ہوتی ہے، اگر ہم اسے اپنے سے باہر لانے کی کوشش کریں گے تو ترتیب الٹ جائے گی اور ہم کبھی اصلاح نہ لا سکیں گے، اپنے گھر کو اپنے وطن کو پہلے دیکھنا، جانچنا ضروری ہے، کہ دشمن اندر ہی ہوتا ہے اور اس کا تعلق اندر والوں سے، ہلاکو بغداد کو کبھی تاراج نہ کر سکتا اگر شہر پناہ اور ملک کے اندر اس کے سہولت کار موجود نہ ہوتے، جب اس دنیا میں میڈیا نہ تھا تو اس کی جگہ شاعر یہ کام کرتے تھے، اور حکومت وقت کو خطرات سے بروقت بمعہ مشورہ اپنی شاعری کے ذریعے آگاہ کرتے تھے، یہ تاریخی حقیقت ہے، ہم دور نہیں جاتے لیکن پاکستان ہو یا کوئی اور ملک اس کو نقصان اندرون ملک ہی سے پہنچتا ہے اور بیرونی دشمن بھی کسی ملک کے خلاف کوئی کامیاب کارروائی اندر کے غداروں بدکرداروں اور کرپٹ عناصر کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتا، کیونکہ ذاتی مفاد کے پجاری اپنی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں، ناجائز کام ناجائز رزق کمانے والے ہی روانی کے ساتھ کرتے ہیں، یہی حرام خوری کے مابعد اثرات ہوتے ہیں جو ہم ایک عرصے سے اپنے ملک کے اندر دیکھ رہے ہیں، دہشت گردی ایک ذہنیت کا نام ہے جسے ذرا سا پانی دیا جائے تو اس کی مٹی بڑی زرخیزی لاتی ہے، ہمیں یہ ذہنیت ختم کرنا ہو گی تاکہ دہشت گردوں کی صف میں نئی بھرتی نہ ہو۔
٭٭٭٭
مفلس کے چشم و چراغ مدہم پڑ رہے ہیں!
پاکستان میں مزید 5لاکھ بچوں کے لاغر ہونے کا خدشہ، سندھ میں قحط، خیبر پختونخوا میں نقل مکانی، یونیسیف نے کہا ہے تو سچ ہی ہو گا، ہم سے کوئی پوچھتا یعنی ہمارے حکمرانوں سے تو ’’سب اچھا‘‘ کی تصویر جو ان کو ورثے میں ملی ہے دکھا دیتے، حیرانی ہے کہ معاشی ترقی کی خبروں سے اخبار بھرے ہوتے ہیں، اور 5لاکھ بچے لاغر ہیں، اور سندھ میں قحط ہے، یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ سب کو معلوم ہے مگر کوئی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ سب اچھا کی تصویر اب دفنا دو، اور کوئی حقیقی تصویر کا سربند کرو، سندھ میں بڑے بڑے جاگیردار، زردار، وڈیرے رہتے ہیں، اگر ان میں کوئی ایک بھی چاہے تو سندھ سے قحط کا خاتمہ کر سکتا ہے، حکومت سے ہم اس لئے نہیں کہتے کہ پھر وہ کہتی ہے؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
اس لئے بے ادبی کے ڈر سے اسے زحمت نہیں دے سکتے، تھر میں اب بھی موت کا رقص جاری ہے، وہاں پورا ریگستان لاغر ہے اب یہ کہ سندھ کے قحط زدگان نے خیبر پختونخوا کا رخ کر لیا ہے، جیسے وہاں بڑی خوشحالی ہے، یہاں بھوکا ہی بھوکے کو کھلاتا ہے اور جن کے باعث یہاں بھوک ننگ افلاس ہے وہ صرف اپنی توند بڑھا رہے ہیں تاکہ مزید گنجائش پیدا ہو، سندھ حکومت میں بڑے بڑے مالدار ہیں سب مل کر اپنی ایک چوتھائی دولت بھی بھوکے لوگوں لاغر بچوں کے لئے دے دیں، تو ان کو ثواب کے ساتھ ساتھ قحط و افلاس کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔
٭٭٭٭
موت کا ایک دن معین ہے
مصر میں مردہ خیال کر کے دفن کیا جانے والا شخص 35دن تک قبر میں زندہ رہا جسے وہ نہ مارے اسے کوئی نہیں مار سکتا، اس واقعہ نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ہمارے کسی کو ’’مردہ‘‘قرار دینے کے پیمانے بھی ٹوٹ جاتے ہیں، غلط نتائج دیتے ہیں، ہم اپنے اردگرد کئی افراد کو دیکھتے ہیں اور انہیں شادی شدہ سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ وہ کنوارے ہوتے ہیں، ایک ماہ 5دن قبر میں رہ کر زندہ رہنے والا مصری شخص اس لئے دفن کر دیا گیا ہو گا کہ اسے ڈاکٹروں نے عزیز رشتہ داروں نے چھان پھٹک کر مردہ قرار دے دیا ہو گا اور اس کی تجہیز و تکفین کے بعد قبر میں اتار کر قبر ایئر پروف کر دی ہو گی، مگر اسے جس نے 35دن زندہ رکھا اسی نے قبل از وقت دفن کرنے کی غلطی سے لوگوں کو آگاہ کر دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ بندے کو صرف وقت مقررہ ہی مار سکتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کا مقرر کر رکھا ہے، گائوں والوں نے بتایا کہ وہ نہایت نیک اور لوگوں کے کام آنے والے انسان تھا، یہ شخص 35دن زندہ رہا اور جب وقت آیا تو قبر کشائی سے دو گھنٹے پہلے فوت ہو گیا، ماہرین نے معائنے کے بعد یہ اعلان کیا کہ وہ اس طرح تروتازہ تھا جیسے اسے ابھی دفن کیا گیا ہو، رشتہ داروں نے بتایا کہ خواب میں آ کر بتایا کہ مجھے یہاں سے نکال کر وہاں دفن کرو جہاں میں نے عبادت کے لئے جگہ بنائی تھی، اب اس کا باقاعدہ مزار بنایا جا رہا ہے، قدرت بعض اوقات اپنی نشانیاں ظاہر کرتی ہے، اور یہ باور کراتی ہے کہ باکردار افراد مر کر بھی نہیں مرتے جبکہ بقول سلطان العارفین باہوؒ؎
میں قربان تنہاں دے باہو
قبر جنہاں دی جیوے ہو
٭٭٭٭
بے انصافی کا رقص؟
....Oپاکستان سپر لیگ کے دوران بک میکروں سے رابطے شرجیل خان اور خالد لطیف معطل وطن واپس بھیج دیا گیا۔
ہر شعبے میں ہے آگ برابر لگی ہوئی!
....Oحافظ آباد:دوشیزہ کا سرعام ہاتھ پکڑ کر موبائل نمبر طلب کرنے والا نوجوان گرفتاری کے بعد رہا،
اب اس کے بعد کس دوشیزہ کا ہاتھ اوباش امیر زادوں سے محفوظ ؟
اس نوجوان کو اگر گرفتار نہ کیا گیا تو اس ملک سے ظلم ختم نہ ہو گا، گرفتاری کے بعد رہا کرانے والوں کے خلاف عدلیہ از خود نوٹس لے، اور پاکستان کے عوام سزا پر عملدرآمد کرائیں ورنہ یہاں کے کروڑوں عوام کی بچیوں کی عزتیں غیر محفوظ ہو جائیں گی، میڈیا بھی اس ناانصافی کا تعاقب کرے، تاکہ شر کی تدفین کے بجائے اسے بے نقاب کیا جا سکے، اور سزا مجرم کو مل کے رہے، اب لوگوں کو اٹھنا ہو گا، ورنہ یہ لوگ بڑھتے جائیں گے، اور کوئی انہیں روک نہ سکے گا۔ جس ملک میں انصاف کی حکمرانی کے ذمہ دار خود عدالتوں میں مطلوب ہوں وہاں سے برکت، رحمت، حرمت اٹھ جائے گی، آسمان کے برہم ہونے سے پہلے ظالموں کے ہاتھ روکنا چاہئیں ورنہ یہاں صرف بے انصافی رقص کرے گی اور بے گناہوں کو ہتھکڑیاں لگتی رہیں گی۔



.
تازہ ترین