• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23 جنوری 2017کو میں نے اسی ہر دلعزیز روزنامہ جنگ میں مثنوی مولانا روم کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا اور مثنوی روم میں بیان کردہ ایک واقعہ ’کاتب وحی کا مُرتد ہوجانا‘ کے بارے میں بیان کیا تھا۔ مجھے اس واقعہ کی صداقت کے بارے میں کوئی ریفرنس نہیں ملا تھا اور میں نے اپنے کالم میں یہ صاف طور پر بیان کردیا تھا۔ میں نے دو تین مذہبی اسکالر سے اس بارے میں پوچھا تھا اور وہ بھی ریفرنس نہیں بتا سکے تھے۔ روزنامہ جنگ اور جاپان میں ایک محب وطن پاکستانی نے جو اُردو نیٹ ورک چلاتے ہیں اور میرے کالم کو بھی نیٹ پر ڈال دیتے ہیں اس کو پڑھ کر نیویارک میں مقیم محترم جناب تنویر پھولؔ نے اس واقعہ کی صداقت کے بارے میں ایک خط جناب ناصر ناکاگاوا کو بھیج دیا جو انھوں نے مجھے بھیج دیا۔ ایک اور ذریعہ معلومات جناب استاد محترم محمد حیات راٹھور صاحب نے تحصیل ممتاز آباد ضلع حویلی، آزاد کشمیر سے مجھے ایک خط میں اس واقعہ کی صداقت سے متعلق ایک مراسلہ روانہ کردیا۔ میں بھائی تنویر پھولؔ اور استاد محترم محمد حیات راٹھور صاحب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس اہم موضوع پر روشنی ڈال کر نہ صرف میری معلومات میں قیمتی اضافہ کیا ہے بلکہ جنگ اور دی نیوز کے قارئین کو بھی حقائق سے آگاہ کردیا ہے۔ اللہ پاک دونوں کو اجرعظیم عطا فرمائے۔ آمین۔ دونوں خطوط حاضر خدمت ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر ۔ تنویر پھولؔ ۔ نیویارک
اردو نیٹ جاپان 29جنوری2017
24 جنوری 2017ء کے ’’اُردو نیٹ جاپان‘‘ میں محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تحریر مندرجہ بالا عنوان مثنوی رومؒ زیر نظر آئی جس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ کاتب وحی کے مرتد ہوجانے کا واقعہ انھیں تاریخ میں نہیں مل سکا۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ حضرت عثمان غنی ؓ کا رضاعی یعنی دودھ شریک بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح جنہیں عام طور سے عبداللہ بن ابی سرح یا ابن ابی سرح کہا جاتا ہے، وحی کی کتابت پر مامور تھا۔ اُس کے دماغ میں خلل اُٹھا تو وہ مدینہ منورہ سے بھاگ کر قریش کے پاس پہنچ گیا اور اُس نے یہ کہنا شروع کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ ’’غفوررّحیم‘‘ لکھو تو میں ’’غفورُ حلیم‘‘ لکھ دیتا ہوں اور اُنھیں پتا ہی نہیں چلتا (نعوذ باللہ)۔ اس طرح مرتد ہوکر اُس نے توہین رسالت کے ساتھ ساتھ وحی اور قرآن کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جس پر کفار نے خوب ٹھٹھے لگائے اور دین اسلام کا مذاق اُڑایا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک فتنہ تھا اور قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’الفتنۃ اشدّ من القتل‘‘ یعنی فتنہ قتل سے بڑھ کر شدید ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ مرتد جہاں بھی نظر آئے اسے فوراً قتل کردیا جائے۔ جب مکہ فتح ہوگیا تو وہ اپنی جان بچانے کے لئے اِدھر اُدھر چھپتا پھر رہا تھا۔ آخر کار کوئی جائے فرار نہ دیکھ کر وہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان غنی ؓ کے پاس آیا، انھیں دودھ شریک کا واسطہ دیا اور اُن سے جان بخشی کی سفارش کی درخواست کی چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی درخواست پر اس مرتد کی جان بخشی ہوئی اور اُس کی توبہ مانی گئی۔ بعد میں خلافتِ راشدہ کے دوران وہ مصر کا گورنر بھی بنا۔ اس شخص کا ذکر سنن ابی دائود، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 179 میں بھی ہے۔
بخدمت جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان محسن ِ پاکستان
اسلامُ علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ پاک آپ کو بخیروعافیت رکھے۔ روزنامہ جنگ میں آپ کا کالم بعنوان ’’سحر ہونے تک‘‘ پڑھتا ہوں۔ مورخہ 23 جنوری، 2017بروز پیر آپ نے اپنے کالم ’’مثنوی مولانا روم‘‘ کے عنوان سے ایک واقعہ کا ذکر فرمایا ہے جس میں ایک’ کاتب وحی کا مرتد ہوجانا‘ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ پورا واقعہ میری نظر سے نہیں گزرا ہے۔ راقم اپنے مطالعہ کی روشنی میں یہ واقعہ آپ کو ارسال کررہا ہے۔ ’’ فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الخٰلِقین‘‘ (سورۃ المومنون، آیت نمبر ۱۴) ۔ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب تھا۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھوائے بغیر یہ جملہ اس نے آیت مذکورہ کے آخر پر زبان سے کہہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح لکھ لو۔ یہ اسی طرح نازل ہوا ہے۔ ’’عبداللہ ہلدی کی گنڈلی لیکر پنساری بن گیا‘‘ اور لوگوں سے کہنے لگا کہ اگر محمدؐ پر وحی آتی ہے تو مجھ پر بھی وحی آتی ہے۔ یہ کہہ کر اسلام سے پھر گیا۔ اور مکہ چلا گیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو جہاں چند اور لوگوں کو آپؐ نے واجب القتل قرار دیا وہاں عبداللہ بن سعد کو بھی واجب القتل قرار دیا اور حکم دیا کہ جہاں بھی ملے اس کو قتل کردو۔ عبداللہ بن سعد حضرت عثمان غنی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سفارش کا خواستگار ہوا۔ حضرت عثمان ؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسکی جان بخشی کی درخواست کی۔ حضور کافی دیر خاموش رہے۔ پھر دیر بعد ارشاد فرمایا …اچھا…(عبداللہ کو امان مِل گئی) حضرت عثمان ؓ چلے گئے تو حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا (تم نے میرے اچھا کہنے سے پہلے ہی اسکو قتل کیوں نہ کردیا) میں تو دیر تک اسی لیے خاموش رہا تھا کہ تم اسکو قتل کردو گے۔
ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ہم کو اِشارہ کیوں نہ فرمایا۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا، ’’نبی کیلئے یہ زیبا نہیںکہ وہ نگاہ کی چوری کرے‘‘۔ عبداللہ اسی روز دوبارہ مسلمان ہوگیا پھر اس کا اسلام اچھا رہا۔
واقعہ متذکرہ صدر میں تین اہم نکات ہیں۔ ۱۔ گستاخی پر واجب القتل قرار دیا۔ ۲۔ حضرت عثمان ؓ بن عفان کی سفارش اتنے بڑے مجرم کے حق میں قبول فرمالی۔ ۳ ۔ نگاہ کی چوری کسی نبی کو زیب نہیں دیتی۔
والسلام…دعاگو
محمد حیات راٹھور (ماہر مضمون اسلامیات، ہائر سیکنڈری اسکول سولی)ڈاکخانہ پلنگی تحصیل ممتاز آباد، ضلع حویلی، آزاد کشمیر۔ تحریر 24/01/2017
آپ نے دیکھا کہ رُوزنامہ جنگ پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے اور مجھے اپنے کالموں پر امریکہ، نیوزی لینڈ، امریکہ، کینیڈا، یورپ کے مختلف ممالک سے تبصرے موصول ہوتے ہیں۔ ان کو پڑھ کر اور ان لوگوں کے تاثرات پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ اردو دان دنیا کے ہر ملک اور ہر گوشہ میں موجودہ ہیں اور روزنامہ جنگ اور روزنامہ دی نیوز کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اور مجھ سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔

.
تازہ ترین