• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کے خود ساختہ صدر پرویز مشرف نےبھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ ان مذاکرات کا مقصد مسئلہ کشمیر کا ایک ایسا حل تلاش کرنا تھا جو پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے لئے قابل قبول ہو، تاہم کشمیر کی حریت پسند قیادت ان مذاکرات سے خوش نہ تھی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں انہیں آزادی نہیں بلکہ نیم خود مختاری پر ٹرخایا جانا تھا کیونکہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بارڈر تسلیم کرکے دفاع، خارجہ، مواصلات اور کرنسی بھارت کے ہاتھ میں دی جارہی تھی۔ انہی دنوں صحافیوں، ادیبوں اور فنکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے خصوصی وفود کا تبادلہ بھی کیا جارہا تھا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک وفد کچھ نامی گرامی فلم سازوں، ہدایتکاروں اور اداکاروں کو لے کر ممبئی پہنچا تو اداکار دھرمیندرا نے اپنی رہائش گاہ پر پاکستانی وفد کے لئے دعوت کا اہتمام کیا۔ دھرمیندرا اس وقت تک بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے رکن منتخب ہوچکے تھے۔ انہوں نے پاکستانی وفد کے سامنے امن کی آشا کے حق میں ایک نظم بھی پیش کی۔ پاکستانی وفد کے ارکان نے اس نظم کے ہر شعر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے لیکن ایک پاکستانی نوجوان بالکل خاموش رہا۔ اس نے دھرمیندرا کی نظم سن کر اس کے گھر کی چھت کو گھورنا شروع کردیا۔ کھانا شروع ہوا تو دھرمیندرا نے سب پاکستانیوں کی پلیٹوں میں پالک پنیر اور بینگن کا بھرتہ ڈالنا شروع کردیا لیکن ایک پاکستانی نوجوان اپنی نشست پر ہی بیٹھا رہا اس نے کچھ کھانے پینے سے معذرت کرلی۔ دھرمیندرا نے ایک پاکستانی فلم ساز سے پوچھا کہ یہ خوبصورت سا نوجوان کون ہے جو کچھ بولتا بھی نہیں اور کھاتا پیتا نہیں؟ فلم ساز نے بتایا کہ یہ ہماری فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا سپرا سٹار شان ہے۔
دھرمیندرا فوراً شان کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کچھ کھا پی نہیں رہے؟ شان نے جواب میں کہا کہ وہ اپنے ملک کے وفد کے ساتھ بھارت تو آگئے ہیں اور بھارت کے ساتھ بلاوجہ کے لڑائی جھگڑوں پر بھی یقین نہیں رکھتے لیکن سمجھ نہیں آئی کہ یہ وفد آپ کے گھر کیا لینے آیا ہے؟ دھرمیندرا نے حیرانگی سے پوچھا کہ کیا مطلب؟ شان نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہ کہا دیکھئے میں آپ کے گھر میں کھڑا ہوں لیکن میں آپ کے گھر میں کچھ نہیں کھائوں گا کیونکہ آپ کے بیٹے سنی دیول نے اپنی فلموں میں میرے ملک پاکستان کے خلاف صرف ڈائیلاگ نہیں بولے بلکہ گندی گالیاں دی ہیں تو جناب جس گھر کے لوگ مجھے گالیاں دیں میں ا س گھر کا نمک کیسے کھالوں؟ یہ سن کر دھرمیندرا نے بلند آواز میں اپنے نوکروں سے کہا کہ اوئے سنی کتھے وے اونوں بلا کے لیائو(سنی کہاں ہے اسے بلا کر لائو) ۔ تھوڑی ہی دیر میں سنی دیول بھی آگیا۔ دھرمیندرا نے شان سے کہا کہ لو جی آپ کا ملزم آگیا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج کے بعد میرا منڈا آپ کے ملک کو کبھی گالی نہیں دے گا۔ دھرمیندرا نے شان سے معذرت کی تو پاکستان کے کچھ نامی گرامی فلم سازوں نے میزبان سے معذرت شروع کردی اور کہا کہ ہمارے ہیرو کو حقیقی زندگی میں بات چیت کا ڈھنگ نہیں آتا، آپ ہمیں معاف کردیں۔
اگلے دن پاکستانی وفد کی بھارت کے معروف فلم ساز یش چوپڑا سے ملاقات تھی۔ یہاں پر بھی شان خاموش خاموش تھا۔ یش چوپڑا نے پوچھا کہ ہیرو صاحب آپ اتنے خاموش کیوں ہیں؟ شان نے جواب میں کہا کہ میں بولوں تو مصیبت نہ بولوں تو بھی مصیبت۔ دراصل مجھے آپ کے ساتھ کوئی کام نہیں نہ میں نے آپ کے ساتھ مل کر فلم بنانی ہے نہ آپ کی فلم میں کام کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔
یش چوپڑا نے شان کے بارے میں کریدنا شروع کیا کہ یہ کون ہے؟ اسے پتہ چلا کہ یہ ریاض شاہد کا بیٹا ہے جنہوں نے کشمیر کی تحریک آزادی پر’’یہ امن‘‘ کے نام سے فلم بنائی تھی اور شان کی والدہ نیلو بھی اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ تھیں۔ یہ جاننے کے بعد یش چوپڑا نے شان سے کوئی بات نہیں۔ پاکستان کی فلمی صنعت کا یہ وفد واپس آگیا اور اس کے بعد کچھ پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کے لئے بھارتی فلموں کے لئے دروازے کھول دیئے گئے لیکن شان کے لئے پاکستان میں کچھ دروازے بند ہوگئے۔ پاکستان کی اندھی محبت میں گرفتار یہ اداکار چاہتا تو اپنے دل کی بات کو دل ہی میں چھپا کر بہت کچھ حاصل کرسکتا تھا لیکن اس نے اپنے باپ کی طرح کشمیر کی تحریک آزادی پر فلمیں بنانے کے منصوبے بنانے شروع کردیئے۔ شان کو راہ راست پر لانے کے لئے پرویز مشرف نے ذاتی طور پر اس کے ساتھ قربت بڑھائی۔ اسے وزیر ثقافت بننے کی پیشکش کی لیکن شان کا کہنا تھا کہ میں ایک اداکار ہوں مجھے اداکار ہی رہنے دیں۔ایک دن ایک تقریب میں مشرف صاحب نے ناچنا شروع کیا تو شان کو بھی اپنے ناچ میں شامل کرلیا۔ شان کا مشرف کے ساتھ یہ ناچ کچھ لوگوں کے دل پر نقش ہوگیا اور انہوں نے شان کو بھی اپنا مخالف سمجھنا شروع کردیا حالانکہ آج کل مشرف کی باقیات آپ کو پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں چہکتی اور مہکتی نظر آتی ہے۔
میں نے شان کے یہ قصے آپ کو اس لئے سنائے کہ میں دو دن سے دبئی میں ہوں۔ آج صبح مجھے ناشتے کے دوران ایک بھارتی مسلمان مل گیا۔ اس نے مجھے پہچان کر کہا کہ بھائی صاحب! آپ پاکستان کے فلم ایکٹروں اور سنگرز تک بھارتی مسلمانوں کا ایک پیغام پہنچا دو۔ ہماری آپ کے ایکٹروں اور سنگرز سے گزارش ہے کہ خدارا ایسی کسی بھارتی فلم میں کام نہ کیا کریں جس میں ہم مسلمانوں کی تضحیک کی جاتی ہے۔ اس بھارتی مسلمان نے کہا کہ شاہ رخ خان کی فلم’’رئیس‘‘ کو دیکھ کر ہمیں شرم آتی ہے کیونکہ فلم کا مرکزی کردار شاہ خان بھی مسلمان اور ہیروئن ماہرہ خان بھی مسلمان لیکن دونوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے مسلمانوں کی تضحیک کی ہے۔ میں نے اپنے اس مسلمان بھائی کو یاد دلایا کہ اسی شاہ رخ نے’’مائی نیم از خان‘‘ بھی تو بنائی تھی اور مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات کا جواب بھی دیا تھا ۔لیکن بھارتی مسلمان بھاگ کر اپنی بیوی کو بھی بلا لایا اور دونوں نے انتہائی دکھی لہجے میں کہا کہ شاہ رخ خان نے بی جے پی کے دبائو سے نکلنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف فلم بنائی ہے ورنہ ایک پاکستانی ایکٹرس کے ساتھ اس کی فلم بھارت میں ریلیز نہ ہوتی۔ پھر میں نے ان دکھی میاں بیوی کو بتایا کہ ہمارا ایک ایکٹر ایسا بھی ہے جس نے ممبئی میں د ھرمیندرا سے اس کے گھر میں معافی منگوائی اور اس کا نام ہے شان۔ یہ سن کر دونوں میاں بیوی نے کہا کہ شان کو ہمارا سلام کہئے گا وہ صرف آپ کی نہیں ہماری بھی شان ہے۔

.
تازہ ترین