• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس آف پاکستان محترم جناب جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ ہفتے صوبہ سندھ کے علاقے جیکب آباد میں دو معصوم بچیوں کو ونی کرنے کی خبروں پر از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔ چار اورآٹھ سال کی عمر کی بچیوں کو ونی کرنے کا فیصلہ مقامی جرگے نے کچھ عرصہ قبل ایک تنازعے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیا تھا۔ جس غریب ہاری کی بچیوں کو ونی کیا جا رہا تھا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اس مبینہ ملزم کا بھائی تھا جسے جرگے نے مقامی زبان میں سیاہ کاری کے الزام میں کارو قرار دیا تھا۔
عدالت عظمی کے چیف جسٹس کی طرف سے غیر قانونی جرگے کے فیصلے کا نوٹس جمعہ کواس وقت لیا گیا جب صرف سات روزقبل اسی دن ہی قومی اسمبلی نے متبادل تنازعہ جاتی تصفیہ بل منظور کرتے ہوئے پنچایت اور جرگہ کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔ تنازعات نمٹانے کا یہ بل بذات خود متنازع ہو چکا ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے اس پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ بل کے متنازع ہونے کا پس منظر یقیناً پاکستان کے مختلف علاقوں میں رائج پنچایت اور جرگے کا وہ نظام ہے جس نے کارو کاری،ونی یا سوارا جیسی قبیح سزائیں متعارف کرائیں۔ جب پنچایت اور جرگے کے اس نظام کو قانونی اور آئینی تحفظ دینے کی بات کی جائے گی جس میں کسی ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے کبھی دہکتے انگاروں پر چلنا پڑتا ہے تو کبھی اسے خطاکار نہ ہونے کا یقین دلانے کیلئے دیر تک پانی کے نیچے سانس روک کر ڈوبنے جیسے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ قصوروارہونے کی صورت میں کبھی اس کی غلطی کی سزا اس کی بیٹی،بہن یا بیوی کو ونی یا سوارا ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے تو کبھی کاروکاری جیسا کلنک کا ٹیکہ سجا کراسے خود زندہ درگور ہونا پڑتا ہے تو یقیناً کوئی بھی ذی شعور اس نظام کی حمایت نہیں کرے گا۔
یہاں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ قومی اسمبلی سے منظور کردہ آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن المعروف (اے ڈی آر) کے ذریعے کیا معاشرے میں رائج پنچایت اور جرگے کے غیر قانونی نظام کو قانونی حیثیت دی جا رہی ہے تو اس ضمن میں غلط فہمی اور ابہام پایا جاتا ہے۔ اس ابہام کی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے جس متبادل تنازع جاتی تصفیہ بل2017کو منظور کیا ہے اس میں اس متبادل نظام کی جو تعریف کی گئی اس میں لکھا گیا ہے کہ متبادل تنازع جاتی تصفیہ (اے ڈی آر) سے مراد وہ عمل ہے جس میں فریقین تنازع کے تصفیہ کرنے کے طریقہ کار میں عدالتوں کے علاوہ تجویز کردہ ثالثی،مصالحت کار،غیر جانب دار شخص اور پنچایت یا جرگہ سے رجوع کر سکیں گے۔ بل میں شامل پنچایت یا جرگہ کے الفاظ نے سارے تنازع کو جنم دیا ہے کیوں کہ اس سے یہ تاثر پید اہوا کہ پنچایت اور جرگہ کے موجودہ نظام کو متبادل تصفیہ کا نظام قبول کرتے ہوئے قانونی اور آئینی حیثیت دے دی گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایکٹ بننے کی صورت میں اس قانون کا اطلاق صرف وفاقی دارلحکومت یعنی اسلام آباد اور اس کی حدود میں ہو گا۔ متبادل تصفیہ کے اس نظام کی کامیابی کی صورت میں اگر اس کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک بڑھانا مقصود ہوا تو اسی بل کی طرز پر صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کریں گی کیوں کہ دیوانی مقدمات میں قانون سازی کا اختیار انہی کو حاصل ہے۔ قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے بل میں واضح کیا گیا ہے کہ تنازعات کی 23 دیوانی اقسام میں تصفیہ کے اس متبادل نظام سے استفادہ کیا جا سکے گا۔ ان دیوانی اقسام میں مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان تنازع، شفعہ کے مقدمات، زمین اور جائیداد کے تنازعات،پیشہ وارانہ لا پروائی سے متعلق تنازعات، تنسیخ نکاح اور نان نفقہ کے خاندانی تنازعات،غیر منقولہ جائیداد کی تقیسم کے ذریعے علیحدہ قبضے، مشترکہ جائیداد کے کھاتوں کی سپردگی، کمپنیات اور بنکنگ کے امور سمیت دیگر تنازعات شامل ہیں۔ مجوزہ متبادل نظام کے ذریعے ایسے فوجداری مقدمات یا تنازعات میں بھی تصفیہ کیا جا سکے گا جو قابل ضمانت ہیں۔
قومی اسمبلی میں بل کی منظوری کے عمل کے دوران یہ سوالات ضرور اٹھائے گئے کہ اے ڈی آر کے عمل میں خواتین کا استحصال ہوگا اور وہ مردوں یا خاندان کے دباؤ کی وجہ سے انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں سے رجوع نہیں کر سکیں گی تاہم بل میں واضح طور پر درج کیا گیا ہے اور وفاقی وزیر قانون و انصاف نے بھی وضاحت کی کہ عدالتیں اس وقت تک کوئی بھی مقدمہ اے ڈی آر کومنتقل نہیں کریں گی جب تک دونوں فریقین رضامندی ظاہر نہیں کریں گے۔ فی الوقت رائج پنچایت یا جرگے کی ہیئت کے برعکس متبادل تنازع جاتی تصفیہ کے نظام کے تحت حکومت ہائی کورٹ کی مشاورت سے ہر ضلع میں غیر جانب دار افراد پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیگی۔ ان میںوکلا، اعلیٰ اورماتحت عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان، ریٹائرڈسرکاری ملازمین ،سماجی کارکنان، علما،ماہر قوانین اور اپنے شعبے کے معروف اور ایماندار افراد شامل ہوں گے۔ عدالت کی طرف سے فریقین کی رضامندی کی صورت میں بھیجے گئے کسی بھی مقدمے یا تنازعے میں یہ غیر جانب دار افراد ثالثی، مصالحت یا مفاہمت کے ذریعے تصفیہ کراسکیں گے۔ قانون سازوں کی طرف سے منظور کئے گئے بل میں اگرچہ پنچایت یا جرگہ کے موجودہ نظام کو آئینی تحفظ نہیں دیا گیا لیکن اسی بل کی شق چودہ میں پنچایتی نظام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ جہاں کسی بھی قانون کے تحت پنچایتی یا جرگہ کا نظام قائم کیا گیا ہو تو یہ اس ایکٹ میں فراہم کئے گئے طریقہ کار کے مطابق دیوانی تنازعات کے دوستانہ تصفیہ میں آسانی پیدا کرے گا۔ اگرچہ اس دفعہ میں پنچایت یا جرگہ کی تشکیل میں قانون کی قدغن کا ذکر کیا گیا ہے یعنی متعلقہ پنچایت یا جرگہ قانون کے تحت قائم کیا گیا ہو لیکن اسے مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قائم جرگے کسی حد تک مقامی قوانین کے تحت ہی تشکیل دئیے گئے ہیں۔ اس طرح اگران پر اے ڈی آرکا ٹھپہ لگا دیا گیا تو لوگوں کے استحصال کو قانونی جواز بھی فراہم ہو جائے گا۔ اے ڈی آر نظام کو متعارف کرانے کےمقصد میں قانونی کہاوت کا ذکرکیا گیا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ متبادل تصفیہ کے نظام کے حق میں یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے، عوام کو تاخیر سے بچانے اور سستے انصاف کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت بھی 19 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواہیں، صرف عدالت عظمی میں زیر التوا مقدمات کی تعداد31 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ ملکی عدالتوں میں جتنے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں اس سے سالانہ ڈیڑھ گنا زیادہ نئے مقدمات دائر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاں نسل در نسل مقدمات کی پیروی ایک تلخ حقیقت ہے وہیں حال ہی میں قیدیوں کو بعد از مرگ رہائی کے فیصلوں نے بھی انصاف کے موجودہ نظام میں پائی جانے والی کمزوریوں کو واضح کر دیا ہے لیکن یہ امر بھی حد درجہ احتیاط کا متقاضی ہے کہ متبادل نظام انصاف کے طور پر عجلت میں ایسا قانون وضع نہ کیا جائے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا، والی صورتحال پیدا ہو جائے۔
قانون منظور کرنے والوں کی سنجیدگی اور دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ انتہائی حساس قانون پر غور کرنے کیلئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی صرف دو نشستیں منعقد ہوئیں جبکہ محض دو درجن ارکان کی موجودگی میں خاطر خواہ بحث کرائے بغیر اس کی منظوری دی گئی۔ سیانے کہتے ہیں کہ بعض اوقات ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اس لئے اب بھی وقت ہے کہ سینیٹ سے متبادل تنازع جاتی تصفیہ بل کی منظوری سے قبل اس پر جامع بحث کرائی جائے اور تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنے کے بعد اسے ایکٹ کی شکل دی جائے۔

.
تازہ ترین