• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرکٹ میں جواپڑ گیا
کرکٹ میں جواریوں کے خلاف آپریشن تیز، کوئی بُرا نہ مانے مگر کرپشن کی روایت قائم کرنے والوں کو نوید ہو کہ اب ہمارے کھلاڑی بھی ان کے نقش غلط پر چل نکلے ہیں، دیکھئے کہاں جا پہنچتے ہیں، کرکٹ بورڈ کس کس کو تحقیقات کر کے نکالے گا، کیونکہ سچ یہ ہے کہ سیاست، حکومت، اسمبلی، مذہب الغرض ہمارے اوپر کے سارے شعبوں میں آنے کے پیچھے صرف کسبِ زر کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے، یہی جذبہ اگر کرکٹ کے میدان میں بھی اتر گیا ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کرپشن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ لوگ معاشی لحاظ سے تنگ ہیں مجبور ہو کر بددیانتی میں ہاتھ ڈالتے ہیں، اگر یوں ہوتا تو غریب لوگ کرپٹ ہوتے وہ جب تنگ ہوتے ہیں تو ماسٹرز کی ڈگری لے کر بھی ریڑھی لگا لیتے ہیں، مگر حرام خوری نہیں کرتے، کرپشن کے پیچھے ہوس کارفرما ہے اور یہ اوپر سے نیچے کو منتقل ہوتی ہے، کرکٹ آج کی دنیا میں ایک منافع بخش کھیل ہے یا کاروبار ہے، کہ ایک کرپٹ کھلاڑی راتوں رات تنگ و تاریک گلی سے ڈیفنس کی کشادہ کوٹھی میں منتقل ہو جاتا ہے، یہ جو جواری کھلاڑی پکڑے گئے ہیں ان کے بھی استاد ہوں گے جن کے یہ شاگرد ہیں، جوا بھی ایک کھیل ہوتا ہے، کرکٹ بھی ایک کھیل، مگر دونوں میں قوت محرکہ مختلف ہوتی ہے، ملک کی عزت کو ان ’’اسپیشل‘‘ کھلاڑیوں نے دائو پر لگا دیا، لیکن اللہ تعالیٰ بھلی کریگا، ہمارے دوسرے کرپشن معاملات کی طرح یہ معاملہ بھی بخیر و خوبی طے پا جائے گا، کیونکہ ہم معطل کرتے ہیں برخاست نہیں کرتے
غیرت جاگنے میں تاخیر
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امریکی ویزے میں تاخیر، رضا ربانی نے سینیٹرز کو امریکہ جانے سے روک دیا، پاکستان میں امریکی سفارتخانے سے بھی رابطے معطل، وضاحت تک کسی امریکی وفد، کانگریس کے رکن یا سفارتکار کا خیر مقدم نہ کرنے کا فیصلہ۔
عام لوگوں کے ویزے کس کس رکاوٹ سے دوچار ہوئے، اگرچہ پاکستانیوں کے ویزے نہیں روکے گئے لیکن ٹرمپ کے 7اسلامی ملکوں پر پابندی کے نتیجے میں ہماری سینیٹ نے امریکہ کی شان میں کوئی ’’کلمۂ خیر‘‘ نہ کہا، اب جب سینیٹرز کے ویزوں پر چوٹ پڑی ہے، تو ساری سینیٹ ایک ہو گئی، اور کسی امریکی کے خیر مقدم کا بائیکاٹ سامنے آ گیا، ہر رکن اسمبلی، ہر رکن سینیٹ کو اپنے مقام و مرتبے کا بہت خیال ہےاور یہ نہایت اچھی بات ہے۔
پاکستانیوں کے ساتھ ہیوسٹن میں کیا سلوک ہوتا ہے، پاکستانیوں کے گرد دائرہ تنگ کرنے میں امریکہ پیش پیش ہے، اس عزت افزائی پر سینیٹ نے چپ رہ کر پاکستان کی بڑی خدمت کی، امریکہ یاترا کیلئے ہمارے پاس کئی بہانے ہیں، ہمارے وفد غیر ضروری بھی ہوں تو سرکاری خرچ پر بیرون ملک جاتے ہیں، ذات پات سے بھی زیادہ اس ملک میں اپنی ذات کی پرستش کرانا عام اور اہم مسئلہ ہے، عام پاکستانی کا کوئی کام ناجائز طور پر روکا جائے تو غیرت نہیں جاگتی لیکن ارباب بست و کشادکیلئے قانون اور ہے، خواص کیلئے پاکستان حاضر ہے، عوام کیلئے امریکہ حاضر وہ جو سلوک چاہیں ان کے ساتھ کریں، کوئی نہیں بولے گا۔
٭٭٭٭
یہ تواہم کا کارخانہ ہے
ان دنوں جہاں اور کئی ایسے کارخانے چل رہے ہیں جن کی پروڈکٹس ہر چند کہ ہیں نہیں ہیں کا مصداق ہوتی ہیں، وہم کے شک کا کارخانہ بھی گھر گھر اور فرد فرد میں لگا ہوا ہے، اور اتنی پیداوار دیتا ہے کہ ماہرین نفسیات تھوڑے پڑ گئے ہیں اور جعلی پیروں عاملوں کے دھندے زوروں پر ہیں، ہر شخص نے ہاتھ میں کوئی وہم گمان شک اٹھا رکھا ہے، اس سے بہتر تھا کہ وہ ہاتھ میں پتھر لے لیتا، کیونکہ اس وہم شک اور گمان نے کتنے گھر اجاڑ دیئے، کتنے افراد ذہنی بیمار بنا دیئے، کتنے کام بند کرا دیئے، اور کتنی دوستیاں دشمنی میں بدل دیں، جب کوئی شک کرتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک اچھا اور ایک بُرا خیال آتا ہے، واحد علاج اس وہم کا یہی ہے کہ اس اچھے خیال کو اپنا لیا جائے اور بُرے کو چھوڑ دیا جائے، بدگمانی ایسی بیماری ہے جو گناہ کو جنم دیتی ہے، جرم پر آمادہ کرتی ہے، عفو و درگزر کی قاتل ہوتی ہے، ایک حسینہ کے بائیں رخسار پر نہایت خوبصورت تل تھا کسی نے کہہ دیا علم الاعداد اور علم النجوم کی رو سے جس کی بائیں گال پر تل ہو وہ جلد اس جہاں سے رخصت ہو جاتا ہے، اور پھر کیا تھا اس نے اپنے لمبے ناخنوں سے کھرچنا شروع کر دیا، تل کب اس طرح ختم ہوتا ہے بہرحال وہاں گڑھا پڑ گیا۔ پیپ پڑ گئی، زخم بہنے لگا اور ناسور کی شکل اختیار کر گیا، طبیب کے پاس لے جایا گیا، اس نے تل تو جراحی کر کے نکال دیا مگر رخسار پر ایسا گڑھا پڑ گیا جس کے باعث اس کا رشتہ ہی ٹوٹ گیا، یہ تو ہم پرستی بت پرستی سے کم نہیں، توہم کوئی وجود نہیں رکھتا مگر اچھے بھلے وجود کو لاموجود کر دیتا ہے، اس لئے ہماری گزارش ہے کہ شک، شبہ، گمان، وہم اور مفروضوں سے دور رہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں لیکن نقصان بہت زیادہ۔
٭٭٭٭
عوام صرف پاکستان میں!
....Oعابد شیر علی:پاناما والے روتے اور نواز شریف فیتے کاٹتے رہیں گے،
کیا وہ صرف فیتے ہی کاٹتے رہیں گے؟ عابد صاحب یہ تعریف ہے اپنے لیڈر کی یا تفکیر؟
....Oکتے اپنے مالک کے احساسات سمجھ سکتے ہیں:تحقیق۔ یہ سچ ہے!
2030....Oءتک انسان اپنا دماغ انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کر سکے گا،
کیا یہ دنیا اوور لوڈ ہوگئی ہے؟
17....Oہزار ترقیاتی اسکیمیں تاخیر کا شکار۔
17ہزار فیتے کاٹنے کے باوجود ایسا ہوا یہ تو بڑا ’’ظلم‘‘ ہے،
....Oغیر ملکی وفد کی آمد شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، گریٹر اقبال پارک عوام کیلئے بند،
کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟ واقعی عوام صرف پاکستان میں ہوتے ہیں، یہ خواص کا درجہ کب پائیں گے؟


.
تازہ ترین