• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف آج کل عملی طور پر اپنی انتخابی مہم پر ملک گیر دورے کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ 2018ء کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کئے گئے وعدوں کو کسی طرح پورا کر دیا جائے تاکہ ان کی حکومت چوتھی بار اقتدار حاصل کر سکے۔بظاہر حالات تو ان کے حق میں نظر آ رہے ہیں مگر پاناما کی وجہ سے اخلاقی طور پر ان کی پوزیشن وہ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی مگر چونکہ پاکستان اور پاکستانی معاشرہ ان اقدام سے تعلق نہیں رکھتا جہاں اخلاقی روایات سیاسی شخصیات کے کردار اور عمل پر حاوی نہیں ہوتی ۔بلکہ موروثی سیاسی نظام کی وجہ سے معاشرے کی اکثریت اس طرح کی خرابی کو اکثر نظرانداز ہی کر دیتی ہے جیسے کل کے آصف زرداری اور آج کے آصف علی زرداری میں زمین آسمان کا فرق نظر آ رہا ہے اس طرح سپریم کورٹ میں اس سماعت کی پروا کئے بغیر جہاں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف اپنے اپنے سیاسی مشن میں ایسے مصروف ہیں جیسے ان کے بارے میں مخالف حلقوں کی طرف سے جوکچھ کہاجا رہا ہے اس کی انہیں پروا نہیں ہے۔
یہ سوچ اور عمل ان کے نزدیک ٹھیک ہو سکتا ہے مگر ایسا نہ ہو کہ حالیہ امریکی الیکشن میں صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن بھی اس طرح کی خوش فہمی میں ماری گئی ہیں ۔اب چند روز قبل وزیراعظم نواز شریف نے یہ اعلان کیا ہے کہ 2025ء تک ہمارے ہاں شرح ترقی 8فیصد اور مہنگائی ختم ہو جائے گی اللہ کرے یہ اعلان ہم سب کیلئے مبارک ثابت ہو مگر جس ملک میں دو مختلف قسم کے معاشی نظام چل رہے ہوں وہاں معاشی طبقاتی عدم توازن بڑھتا جاتا ہے جیسا کہ اب پاکستان میں نظر آ رہا ہے ایک طبقہ دھڑا دھڑ امیر بلکہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہاہے جبکہ دوسرا طبقہ کئی معاشی مشکلات سے دوچار ہے جس کی بہرحال اکثریت ہے جس میں ہمارے 7/6کروڑ نوجوان ایسے ہیں جنہیں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم لاکھوں روپے خرچ کرکے حاصل کرنے کے باوجود 25،25ہزار روپے کی نوکریاں بھی نہیں مل رہیں جبکہ ہمارے ملک میں سالانہ دس سے پندرہ لاکھ ملازمتیں دینا ازحد ضرور ی ہے ۔
اس طرح بزنس سیکٹر میں کچھ شعبوں کی چاندی ہو رہی ہے اور کئی صنعتیں اور ادارے یا تو عملاً بند ہورہے ہیں اور یا پھر نصف سے بھی کم پیداوار پر آگئے ہیں۔یہی صورتحال ملکی برآمدات اور بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جانے والی ترسیلات کی ہے۔
ایسے حالات میں حکومت کو انتخابی سال میں ایسی حکمت عملی اپنانا ہو گی جس سے اس کا امیج پچھلے سالوں کی طرح بحال ہو اس کیلئے صرف میڈیا مہم یا اشتہاری مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ عملی طور پر عوام کو کچھ ایسے ریلیف دینے ہوں گے جو چند ماہ کیلئے نہ ہوں بلکہ لانگ ٹرم ہوں یہ بات تو واضح نظر آرہی ہے کہ اگلا الیکشن صرف کارکردگی نہیں امیج کے پس منظر میں بھی ہو گا اس کیلئے حکومت کو جامع منصوبہ بندی کیلئے روایتی طرزعمل اختیار کرنے سے شایدوہ نتائج نہ مل سکیں جس کی موجودہ حالات میں حکومت توقع کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی پر انحصار کرنے کی بجائے سیاسی مشاورت سے معاملات چلائے جائیں اور یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ انہیں اس بار انتخابی مہم میں اپنے مخالفین کی ہر طرح کی باتیں سننے کو ملیں گی جس کیلئے انہیں اعلیٰ ظرفی اور برداشت سے کام لینا ہو گا اور پارلیمنٹ میں چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی کسی بھی سوچ کو اختیار کرنے سے احتیاط کرنا ہو گی ۔

.
تازہ ترین