• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے دنیا کو انسانی بقاء کے سب سے بڑے خطرے سے دوچار کر دیا ہے اور وہ ہے ’’ فاشزم‘‘ جو اس سے پہلے دنیا کو عالمی جنگوں کی ہولناکیوں سے دوچار کر چکا ہے۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقابلِ متوقع انتخابات کے بعد دنیا پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہے اور ایک بڑے تباہ کن عالمی تصادم کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ ’’فاشزم‘‘ کے بارے میں عوام الناس حتیٰ کہ اکثر دانشوروں میں بھی کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے جسکی وجہ سے ہر اس جماعت اور گروہ کو فاشٹ قرار دیا جاتا ہے جو کسی بھی طریقے یا نظریے کے ساتھ برسرِ اقتدار آکر جبرواستبداد کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چاہے وہ آمر ہو یا مطلق العنان بادشاہ ،یہ فاشزم کی غیر حقیقی اور غیر سائنسی تعریف ہے جو فاشزم میں مضمر خطرات کی شدّت کو کم کر کے پیش کرتی حالانکہ ’’ فاشزم ‘‘ بنی نوع ِ انسان کی بقاء کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے معروف سیاسی مفکّر لیون ٹرائسکی اپنی کتاب’’ فاشزم کیا ہے اور اس سے کیسے لڑا جائے؟ ‘‘ میں اسکی سائنسی تشریح کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے راقم الحروف نے اس کتاب کا اُردو میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ لیون ٹرائسکی کے مطابق ’’ فاشزم سرمایہ دارانہ سماج کی اس کیفیت کا نام ہے ۔ جب سرمایہ داری اپنے اندرونی بحرانوں کی وجہ سے سماج کو روائتی طریقوں کے ساتھ چلانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ اس وقت محنت کشوں کی روائتی پارٹیاں جو معاشی مساوات کی علمبردار ہوتی ہیں یا تو وجود نہیں رکھتی یا اپنی غلطیوں کی وجہ سے کسی بڑی شکست سے دوچار ہو کر عوامی حمائت سے محروم ہوجاتی ہیں تو اس وقت سرمایہ داری ایک نئے روپ یعنی فاشزم کی شکل میں سامنے آتی ہے اور مذہبی ، قومی یا نسلی جنون کی بنیاد پر محنت کشوں یعنی عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو کر اقتدار حاصل کر لیتی ہے ۔ جس کے بعد انسانی حقوق کی پامالی اور انسانوں کی تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو بالآخر تباہ کن عالمی جنگوں کا سبب بنتا ہے‘‘
فاشزم کی یہی وہ سائنسی تعریف ہے جو اسے فوجی آمریت اور مطلق العنان ملوکیت سے جُدا کرتی ہے کیونکہ دونوں شکلوں میں یہ طبقات عوامی حمائیت سے کسی مروجہ سیاسی انتخابات کے ذریعے اقتدار میں نہیں آتے ۔ جبکہ فاشٹ گروہ عوامی حمائیت سے اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ فاشزم ایک خوفناک رجعتی نظریے کے طور پر اس وقت اُبھر کر سامنے آیا جب بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اٹلی میں میسولینی اور جرمنی میں ہٹلر نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جو تاریخ میں سب سے مہلک ڈکٹیٹر ثابت ہوئے اور انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کی شکل میں دنیا کو سب سے بڑی تباہی سے دوچار کردیا۔
پہلی جنگِ عظیم میں شرمناک شکست اور اس کے بعد ذلّت آمیز معاہدہ ورسلز نے جرمن قوم کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ اور پوری جرمن قوم کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھی جو ان کا قومی وقار بحال کرسکے ایسے میں ایڈولف ہٹلر ایک ’’ نجات دہندہ ‘‘ بن کر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بیسویں صدی کی تعلیم یافتہ اور مہذّب جرمن قوم ’’ نسل پرستی ‘‘ اور ’’ قوم پرستی ‘‘ کے جنون میں اس طرح گرفتار ہوگئی کہ اس کے نزدیک اپنے سِوا کسی دنیا کی کسی قوم کی کوئی حیثیت ہی باقی نہ رہی اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا خوفناک باب بن چکا ہے۔ آج ہم امریکہ اور تیس کے عشرے کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں صدر ٹرمپ اور بدنامِ زمانہ ہٹلر کے انتخابات میں حیرت انگیز مماثلت ملتی ہے ۔ واقعات اور ان کی ترتیب پر ذرا غور فرمائیے (1)اس وقت بھی سرمایہ داری اپنے پورے عروج کے بعد بحران کا شکار ہے جس کی شدّت امریکہ میں سب سے زیادہ ہے۔ بیروزگاری میں اضافہ ، پنشنوں اور صحت کی سہولتوں میں کٹوتیاں اسکی واضح مثالیں ہیں۔
امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے ۔ اسی بحران کی وجہ سے ’’ دہشت گردی‘‘ کا بہانہ بنا کر امریکہ نے عراق اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ لیکن بحران اور بڑھ گیا۔ چنانچہ ہٹلر کی طرح ٹرمپ نے بھی عظیم امریکہ اور سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی۔ ٹرمپ کی اپنی فاشٹ پالیسیوں کی وجہ سے دوسرے سرمایہ دار ممالک چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ شروع ہوگئی ہے جو آگے چل کر کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ (2)سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد محنت کشوں کی روایتی پارٹیاں غیر فعال ہو چکی ہیں اور طبقاتی بنیادوں پر ہونے والی جدوجہد کافی کمزور پڑ چکی ہے ۔ جسکی وجہ سے محنت کش عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے مذہبی ، قومی ، لسانی اور نسلی رجحان رکھنے والی پارٹیوں کی طرف راغب ہوچکے ہیں، انڈیا میں کانگریس ، پاکستان میں پیپلز پارٹی ، برطانیہ میں لیبر پارٹی اور دیگر یورپی ممالک میں محنت کشوں کی نمائندہ جماعتوں کا زوال اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔(3)طویل افغان مزاحمت کے دوران پہلے امریکہ کی آشیرباد سے پوری دنیا میں ’’مسلم انتہا پسندی ‘‘کو فروغ ملا۔ جب امریکہ کو اس کی ضرورت نہ رہی تو ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے 9/11کا ڈرامہ رچایا گیا جس کے ردّ ِ عمل کے طور پر امریکی قوم میں بھی ’’ قوم پرستی‘‘ کا جنون پیدا ہوگیا۔ جسے صدر ٹرمپ نے بڑی ہوشیاری سے انتخابات میں کیش کروایا۔ اور مسلمانوں و تارکین ِ وطن کے خلاف اسے استعمال کیا۔ (4)افغانستان اور خلیجی ممالک پر سیاسی ، معاشی اور فوجی غلبہ ، دہشت گردی کے نام پر تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی امریکی چال تھی۔ جس نے ’’ انتہا پسندی‘‘ کے نام پر پوری دنیا کو تقسیم کردیا۔ لیکن سرمایہ داری کا بحران پھر بھی حل نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ اسی بحران کی منفی پیداوار ہیں اُن کے آنے سے یہ بحران ختم ہونے کی بجائے اور بڑھ جائے گا جو کسی ناقابلِ تصّور تباہی کی شکل میں بھی سامنے آسکتا ہے۔
اب جبکہ صدر ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پوری دنیا ’’فاشزم ‘‘ کے قبضے میں آگئی ہے ۔ کہیں وہ فاشزم امریکی قوم پرستی پر مبنی ہے کہیں یہودی قوم پرستی کہیں مسلم اور ہندوقوم پرستی پر۔ توا س کا حل کیا ہے؟ اس کا حل صرف اور صرف ایک نئے معاشی نظام کا تقاضا کرتا ہے جو انسانوں کو رنگ و نسل اور مذہب و ملّت میں تقسیم کرنے کی بجائے ان کے بحیثیت انسان معاشی مسائل حل کرے ۔ جو صرف انسان کو مخاطب کرے جو ایک خدا کی مخلوق اور ایک آدم کی اولاد ہیں اور جن کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ ورنہ فاشزم کا یہ ریلہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔
مذہب ، نسل ورنگ اور خطّوں کی چاہت کی مانند
قوم پرستی جزوہے جب کہ کل انسان پرستی
جسم کے سارے اعضاء مل کر کام کریں تو جیون
کُل کا جزو سے ہو جو تصادم ، مٹ جاتی ہے ہستی


.
تازہ ترین