• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے سامنے ایک خبر ہے کہ لاہور میں ایک سات سالہ بچے سے کھیلتے ہوئے پمپ ایکشن چل گئی جس سے اسکا دس سالہ بھائی ہلاک ہو گیا ۔ کھیل کھیل میں ایک انسان کی جان چلی گئی ۔ ایک کھیل گزشتہ دس مہینے سے پاکستان میں پاناما کے نام سے کھیلاجارہا ہے جس نے 20کروڑ عوام کی جانوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ پاناما کھیل کیساتھ کئی مزید کھیل شروع ہوگئے ہیں جن میں پی ایس ایل کا کھیل دبئی میں جاری ہے ،لیکن رپورٹ رپورٹ کا کھیل سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے ۔آج کا کالم ان رپورٹس کی مرہون منت ہے ۔ میرا کوئی کمال نہیںبس یہ رپورٹس آپکے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ان میںکتنا سچ اور جھوٹ ہے ۔ ان پر کتنا اعتماد کیا جا سکتا ہے یہ صرف آپ معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا حکمرانوں کی ترجیح عوام ہو سکتے ہیں ؟
انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ اور انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ستمبر، اکتوبر2016ء میں کئےجانیوالے سروے کے مطابق وزیراعظم نواز شریف 63فیصد پسندیدگی کیساتھ مقبولیت میں سرفہرست جبکہ عمران خان 39فیصد کیساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، سروے کی صرف خبریں ہی نہیں چھپوائی گئیں بلکہ حکومت پنجاب کی طرف سے اشتہارات بھی شائع ہورہے ہیں کہ محمد نواز شریف اور شہباز شریف نے جو کہا ، کر دیکھایا کہ نواز شریف پاکستان کے سب سے مقبول سیاسی رہنما اور شہباز شریف سب سے بہترین کارکردگی کے حامل وزیراعلیٰ ہیں ۔دوسری طرف عالمی ریٹنگ ایجنسی ’’ فچ ‘‘کی جانب سے ہے کہ اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت پاکستان ’ ’ بی‘‘ ریٹنگ میں آگیا۔ اسی طرح بین الااقوامی امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی گزشتہ برس اسٹاک مارکیٹ میں 46فیصد اضافے سے معیشت میں حیرت انگیز طور پر بہتری آئی ہے۔ ایک اور عالمی شہرت یافتہ فرم پرائز واٹر ہائوس نے پیشگوئی کی ہے کہ پاکستانی معیشت 2030ء تک دنیا کی 20طاقتور ترین معیشتوں میں شامل ہوگی جبکہ 2050ء تک بڑھ کر 16نمبرہو جائیگا اور شرح ترقی پانچ بہترین ملکوں میں ہوگی —ان رپورٹس کو پڑھ کر تو عام آدمی بڑا خوش ہوگا کہ اب تو انکے دن بدلیں گے، ان معاشی ترقیوں سے وہ بھی حصہ پا سکیں گے ۔ گوان کو ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ۔ لیکن ان کو یہ بتانا ہے کہ مستحکم معاشی حالات پر نہ تو ان کا کوئی حق ہے اور نہ ہی ان کے دن بدل سکتے ہیں، کیونکہ انہوں نے یہ رپورٹ اور خبریں نہیں پڑھیں اور نہ ہی ان پر غور کیا ہے کہ اچھے معاشی حالات کا بہائو کس طرف ہے، پہلی رپورٹ وہ ہے جو وزارت خزانہ نے قومی اسمبلی میںپیش کی تھی کہ یکم دسمبر2013ء اور 30نومبر 2016ء کے دوران موجود ہ حکومت نے 27.8ارب ڈالر کے قرضے لئے ۔ المیہ یہ ہے کہ ان قرضوں کا سب سے بڑا حصہ واپس انہیں قرضوں پر سود اور انکی قسطوں میں ہی ادا ہوجاتا ہے پاکستان کا مکمل بیرونی قرضہ 2013ء میں60.9سے بڑھ کر 74.6ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ ان کی ادائیگیوں پر بجٹ کا سب سے بڑا حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ صرف ان تین سالوں میں خارجی اور داخلی قرضوں میں 43.4فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے اخبارات میں شائع ہونیوالے اشتہارات کے مطابق ’’سب سے زیادہ بہتر کارکردگی کے حامل وزیراعلیٰ پنجاب ہیں‘‘۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کی ریکارڈ کارکردگی دکھائی ہے کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تنخواہوں میں سپیرئیر ایگزیکٹو الائونس کے نام پر چار لاکھ اور تین لاکھ 75ہزار روپے کا اضافہ کر دیا ہے ان دونوں کی تنخواہیں پانچ لاکھ سے بڑھ گئی ہیں ۔ معاشی استحکام کا یہ ثمر صرف ان دو حضرات تک محدود نہیں بلکہ من پسند بیورو کریسی کو اس سے نوازا گیا ۔ اور یہ سب تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیا گیا ہے ۔ چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن اور 20ممبران کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کیا گیا ، چیئرمین کی تنخواہ جو پہلے 2لاکھ پچاس ہزار تھی اب پانچ لاکھ دس ہزار ہوگئی ہے ۔ گریڈ 21کے سیکرٹریوں کو ایگزیکٹو الائونس کے نام پر تین لاکھ جبکہ گریڈ 20کے سیکرٹریوں کویہ الائونس دو سے ڈھائی لاکھ دیا جائیگا ۔ سوال یہ ہے کہ جب ملکی خزانہ صرف ان پر خرچ ہوگا تو عوام تک کیا پہنچے گا ۔ مثال کے طور پر کمشنر سرگودھا کی کوٹھی 104کنال پر محیط ہے جو پاکستان میں کسی بھی سرکاری ملازم کی سب سے بڑی رہائشگاہ ہے۔ ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی کا رقبہ 98کنال، اسی طرح میانوالی کے ڈی سی کی کوٹھی کا سائز 95اور فیصل آباد کا92کنال ہے ۔ سب سے کم رقبے والی کوٹھی ایس ایس پی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی 5کنال ہے۔ ان سرکاری محلات کا کل رقبہ 2ہزار 6سو 6کنال ہے ، جنکی حفاظت ، مرمت اور آرائش پر ہر سال 80کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوتے ہیں، جوتین بڑے اسپتالوں کے بجٹ کے برابر ہے جبکہ انکی دیکھ بھال کیلئے 30ہزار ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملازمین ہیں جنکی تنخواہوں پر 36کروڑ روپے کا بجٹ دیا جاتاہے۔ بس اس سوال پر غورکرنا ضروری ہے کہآئندہ الیکشن کا کنٹرول بیوروکریسی کے پاس ہوگا؟ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے پاکستان میں موجودہ حکومت کی شفافیت پر ایک بار پھر مہر ثبت کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کرپشن میں9درجے بہتری کیساتھ 116ویں نمبر پر آگیا ہے۔ جبکہ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق سرکاری محکموں میں بدعنوانی عروج پر ہے ۔ پاکستان کاروباری آسانیوں کے لحاظ سے 137ویں نمبر پر ہے ، یہاں کاروباری اداروں کیلئے بجلی ، گیس اور ٹیکس جیسے محکمے رکاوٹ کا باعث ہیں۔
رپورٹس پڑھنے کے بعد جب میں پاکستان کے حالات کا معروضی جائزہ لیتا ہوں تو میری نظروں کے سامنے oxfamکی رپورٹ 2017ء ’’ اکانومی فار دی 99پرسنٹ ‘‘ گھوم جاتی ہے ۔ جسمیں کہا گیا ہے کہ دنیا میں غریب کوپیچھے چھوڑا جا رہاہے۔ انکی صحت و تعلیم کی سہولتوں کو کم کیا جارہا ہے ، اجرت جمود کا شکار ہے کیونکہ دنیا کے غریب افراد کی فی کس سالانہ آمدنی میں تین فیصد جبکہ ایک فیصد امیر ترین افراد کی فی کس سالانہ آمدنی میں 11ہزار 800ڈالر اضافہ ہوا ہے جو غریب ترین افراد کے مقابلے میں 182گنا زیادہ ہے ۔ حکومتیں بڑے بزنس مینوں اور امیر ترین طبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کررہی ہیں اور یہ امیر ترین افراد ٹیکس چوری کے باعث دنیا میں معاشی عدم مساوات کے بحران میں اضافہ کر رہے ہیں رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے ٹیکس چوری سے غریب ممالک کو ہر سال کم سے کم ایک کھرب ڈالر نقصان ہوتاہے۔ اس پیسے سے دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر 12کڑور 40 لاکھ بچوں کو تعلیم دی جاسکتی ہے اور 60لاکھ بچوں کو موت کے منہ سے بچایا جا سکتاہے۔ ان کاغذی رپورٹوں سے نہ تو معیشت مستحکم ہوسکتی ہے اور نہ ہی عام آدمی خوشحال ، جب تک عملی طور پر معیشت کا بہائو اوپر سے نیچے کی طرف نہیں ہوتا اور چند فیصد امیر ترین لوگوں کی دولت کو تحفظ دینے کی بجائے غریب کی زندگی کو محفوظ بنانے کی تدبیر نہیں کی جاتی !


.
تازہ ترین