• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں غریب کیلئے بھی اتنے ہی مواقع ہیں جتنے امیر کیلئے ۔ غریب کی اولاد بھی کامیابی کی معراج اور ترقی کے زینے چڑھ سکتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے غریب لوگوں میں جستجو زیادہ پائی جاتی ہے۔ ’’والٹیئر‘‘ نے کہا تھا:’’ میں نے ہمیشہ عظیم لوگوں کو جھونپڑوں سے نکلتے دیکھا ہے۔ فرق کیا ہے ایک عام آدمی اور ان میں؟ انہوں نے کبھی اپنے حالات کا رونا نہیں رویا۔ کبھی افسوس میں وقت ضائع نہیں کیا۔ ہمیشہ مثبت رہے، پُراُمید رہے، بالآخر دنیا نے ان کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا۔ کامیابی کا تصور نظام معیشت سے وابستہ نہیں، بلکہ محنت، مشقت، عزم، حوصلے، سادگی، خلوص کے پیکر اور بغیرسرمائے کےبھی دنیا میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اس کی ایک دو نہیں ہر شعبے اور طبقے سے سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اگر سیاست کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے جنوبی افریقا کے پسماندہ گائوں ’’قونو‘‘ کے ایک چرواہے کو آزادی کا ہیرو ’’نیلسن منڈیلا‘‘ بنادیا۔ ریڑھی پر پھل رکھ کر بیچنے والے سوکھےانسان کو ملائیشیا کا وزیراعظم ’’مہاتیر محمد‘‘ بنادیا۔ انڈیا کی ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے ’’نریندر مودی‘‘ کے والد ’’وادنگر‘‘ کے ریلوے اسٹیشن پر خوانچہ فروش تھے۔ غریب والدین کا غریب بیٹا اپنی محنت اور جدوجہد کے بل بوتے پر آج بھارت کا وزیراعظم ہے۔اگر سماج کی دنیا کی بات کی جائے تو مشرق و مغرب کے وہ تمام بڑے لوگ جنہوں نے قوموں، اُمتوں اور تہذیبوں کا سمتِ سفر تبدیل کیا، معاشرتی انقلاب برپا کئے یعنی افلاطون، ارسطو، سقراط اور بقراط سے لے کر سارتر،ا سپنسر، نطشے، فرائیڈ، ہیگل اور روسو تک ان سب کا راستہ امیری نہیں فقیری تھا، ہے اور رہے گا۔ اسی طرح اگر معیشت کی دنیا کی بات کی جائے تو بنگلہ دیش میں غریبوں کیلئے 30 ڈالر سے قائم ہونے والے ڈاکٹر یونس کے ’’گرامین بینک‘‘ نے دنیا کو نیا معاشی فارمولا دیا ہے۔ اس کے بورڈ آف گورنرز میں آج بھی 13 میں سے 9 ممبران عام اَن پڑھ دیہاتی جفاکش مزدور ہیں۔ اسی طرح ریڑھی پر برگر سے کام شروع کرنے والے ’’ہارلینڈ ڈیوڈ اسینڈرز‘‘پوری دنیا میں معروف فوڈ چین کے ارب کھرب پتی بن گئے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ’’ولیم کولگیٹ‘‘ ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس نے 1806ء میں اپنے ہی نام پر ایک کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ آج اس کمپنی کے بے شمار ذیلی ادارے 200 ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ’’ہنری فورڈ‘‘بھی ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔ یہ اپنی محنت کے بل بوتے پر پہلے صنعت کار اورآخر میں فورڈ موٹر کمپنی کا بانی بنا۔ جاپان سے تعلق رکھنے والا ’’سوئچرو ہنڈا‘‘ایک غریب لوہار کا بیٹا تھا۔ انتھک محنت کر کے انجینئر اور صنعت کار بنا۔ اس نے 1948ء میں اپنے خاندان کے نام پر ’’ہنڈا‘‘ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک لکڑی کی مینو فیکچر بائیسائیکل موٹرز سے بڑھتی، پھلتی پھولتی ایک کثیر القومی کمپنی آٹو موبائل اور موٹر سائیکل مینو فیکچرر بن گئی۔ چین سے تعلق رکھنے والا ’’لی کاشنگ‘‘ایک غریب اسکول ٹیچر کا بیٹا تھا۔ ہانگ کانگ کے بزنس مین، سرمایہ کار اور سماجی و فلاحی شخصیت کے طور پر ابھرا۔ تھوڑا سا دور چلے جائیں۔ ’’کرسٹوفر کولمبس‘‘ ایک جولاہے کا لڑکا تھا۔ ناصر الدین بادشاہ بچپن میں ٹوپیاں بیچا کرتے تھے۔ روس کا سابق ڈکٹیٹر اسٹالن ایک موچی کے گھر میں پیدا ہوا۔ فرانس کا مشہور حکمراں نپولین ابتدا میں ایک معمولی سپاہی تھا۔ مشہور سائنسدان ’’تھامس الوا ایڈیسن‘‘ ایک معمولی اخبار فروش تھا۔ نادر شاہ ابتدا میں ایک گڈریا تھا۔ فرانس کی مشہور ملکہ ’’جوزیفائن‘‘ ایک معمولی تمباکو فروش کی بیٹی تھی۔ اٹلی کا سابق ڈکٹیٹر مسولینی ایک غریب لوہار کا بیٹا تھا۔ امریکہ کا ایک صدر ابراہم لنکن ایک غریب کسان کابیٹا تھا۔ برصغیر کے پہلے مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک شروع میں ایک غلام تھے۔ روس کی مشہور ملکہ ’’کیتھرائن‘‘ فوج میں ایک معمولی خادمہ تھی۔ جمہوریہ کانگو کے پہلے وزیرِ اعظم ’’لومبا‘‘ ابتدا میں ایک معمولی کلرک تھے۔ سقراط بچپن میں ایک پتھر تراش تھا۔ ’’فیریڈی نائیکل‘‘ بھی ایک معمولی جلد ساز تھا۔ روس کے سابق وزیرِ اعظم ’’نکیتیا خروشیف‘‘ ایک مزدور گھرانے میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدا میں مویشی چَرائے اور ایک معمولی لوہار کی حیثیت سے کام کیا۔ مشہور انگریز ادیب ’’تھامس کارلائیل‘‘ ایک بڑھئی اور کسان کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور انگریز سائنس دان ’’مائیکل فیراڈے‘‘ لندن کے مضافات میں ایک غریب لوہار کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور امریکی مدبر، مصنف اور سائنسدان ’’بینجمن فرینکلن‘‘ بوسٹن میں غریب والدین کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور سائنس دان ’’جان کپلر‘‘ بھی جرمنی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ آپ کہیں گے یہ تو قدیم مثالیں ہیں۔ اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں آپ نے ان ممالک اور معاشروں کی مثالیں دی ہیں جہاں امیر اور غریب دونوں کیلئے ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ ان معاشروں اور ممالک میں کوئی بھی شخص اپنی انتھک محنت، توجہ اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا خواب پورا کرسکتا ہے، ہمارا معاشرہ تو بانجھ پن کا شکار ہے۔ یہاں پر جائز اور نظام کے طریقے پر چل کر اعلیٰ منصب، دولت، ترقی اور شہرت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تو میرے بھائیو! یاد رکھو! ایسا ہر گز نہیں ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ اللہ نے اس دنیا کا نظام چلانے کیلئے کچھ اصول، ضابطے اور قاعدے مقرر کئے ہیں۔ بلاتفریق مسلمان اور غیرمسلم جو بھی انسان ان کی پابندی کرے گا اور متعین کردہ اصولوں کے مطابق چلے گا، اس کیلئے کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے۔ پسماندہ ممالک اور غریب معاشروں اور پاکستان میں بھی ایسا ہوا ہے۔ کلرک سے لے کر بس پر کنڈیکٹری کرنے والوں تک نے اعلیٰ مناصب حاصل کئے ہیں۔ بائیسکل پر کپڑے بیچنے والوں سے لے کر انڈے فروشوں تک نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پاکستان میں سیلف میڈ کی سیکڑوں زندہ مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ اگر دنیا مردانِ جفاکش کیلئے تنگ ہے توپھر یہ دنیا نیلسن منڈیلا کی باتوں کو ہوا میں اُڑا کیوں نہیں دیتی؟ ڈاکٹر یونس کے بینک کو جلا کیوں نہیں دیتی اور فلاسفہ یونان کے افکار کو بھلا کیوں نہیں دیتی؟ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں ’’بابر‘‘ جب فرغانہ سے چلا تو سانڈ کی ننگی پیٹھ پر سوار تھا، بے سرو سامانی ہی اُس کا سروسامان تھی، لیکن جفاکشی نے اُسے غلام نہیں، سلطان بنا دیا۔ جب تیموری خون سے جفاکشی نکل گئی تو بہادر شاہ ظفر کی یادگار اور لال قلعے کا ہونے والا مالک شہزادہ سہراب شاہ گانے کے شوق میں دہلی کا باورچی بن کر رہا۔ اس کی ساری عمر ہنڈیا روٹی کرتے گزری۔ اگر بادشاہ کا بیٹا بادشاہ اور غریب کا بیٹا غریب ہی پیدا ہوتا ہے تو دنیا نے عروج اس غریب بابر کو کیوں بخشا؟ شہزادہ سہراب شاہ کو کیوں نہیں دیا؟ کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے؟ دنیا خاموش کیوں ہے؟ غریب کے لئےبھی مواقع اتنے ہی ہیں جتنے امیر کیلئے ہیں۔ غریب کی اولاد بھی کامیابی کی معراج اور ترقی کے زینے پر چڑھ سکتی ہے۔


.
تازہ ترین