• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا یہ دعویٰ کہ پاکستان کی معیشت پٹری پر چڑھ گئی ہے، دنیا کے 22شہرت یافتہ تحقیقی اداروں کی جائزہ رپورٹوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو حقیقت کے کافی قریب لگتا ہے۔ ان رپورٹوں میں تصدیق کی گئی ہے کہ ملک کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ شرح نمو بڑھ رہی ہے اور ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے غربت میں کمی آئے گی۔ اتوار کو گورنر ہائوس لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے جون 2013میں جب اقتدار سنبھالا تو اقتصادی اشاریے منفی تھے۔ مجموعی ترقی کی شرح 3فیصد تھی اور زرمبادلہ کے ذخائر صرف ایک ماہ کے درآمدی بل کے برابر رہ گئے تھے مگر حکومت نے اپنے انتخابی منشور پرعمل کرتے ہوئے معاشی چیلنجز پر قابو پالیا۔ ملک کو ڈیفالٹر ہونے سے بچا لیا گیا، تعلیم و صحت کے پروگراموں کو فروغ دیا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد مکمل کیا گیا۔ اب سی پیک اور دوسرے منصوبوں سے تعمیر و ترقی کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔ فی کس آمدنی بڑھے گی، غربت اور بے روزگاری میں کمی آئے گی اور عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم مالیاتی خسارہ 4فیصد سے بھی کم سطح پر لائیں گے۔ توانائی کے بحران اور شدت پسندی کا مکمل خاتمہ ہمارے منشور کا حصہ ہے۔ جی ڈی پی کی شرح اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گیا ہے اور مقامی صنعتوں کی سمت بھی متعین کر لی گئی ہے، آئندہ سال بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے ملکی معیشت میں استحکام کی جو تصویر پیش کی ہے، اس کے شواہد کم و بیش ہر طرف نظر بھی آرہے ہیں اور توقع کی جانی چاہئے کہ موجودہ حکومت کی مدت کے اختتام تک صورت حال مزید بہتر ہو گی مگر تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ جولائی 2016سے اب تک روزمرہ ضرورت کی کئی اشیا مثلاً چائے، انڈے، پیٹرولیم، دال چنا، چینی، مٹی کے تیل اور کپڑوں کی سلائی وغیرہ کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے سب سے زیادہ عام آدمی متاثر ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق بے روزگاری کی شرح اس وقت 5.9فیصد ہے۔ 5کروڑ 90لاکھ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 76لاکھ خاندانوں کی ماہانہ آمدنی 3030سے بھی کم ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں خوراک رہائش روزگار صحت اور تعلیم سے متعلق مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا حجم تقریباً56کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے تجارتی خسارہ پونے پانچ ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ برآمدات میں 8فیصد کمی اور درآمدات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 84سرکاری اداروں میں کرپشن بڑھ رہی ہے اور دنیا کے کرپٹ ترین ملکوں میں پاکستان کا نمبر34واں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت اپنے اقتصادی ویژن کے مطابق اس صورت حال پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے مگر بین الاقوامی تھنک ٹینکس کے مطابق ملکی معیشت میں بہتری اصل اہداف کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے۔ کسی بھی ملک میں حقیقی ترقی کا صحیح اندازہ عام آدمی کی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہی لگایا جا سکتا ہے جبکہ حکومتی یا بین الاقوامی ادارے زیادہ تر تمام طبقوں کے حالات سامنے رکھ کر ان میں اوسط تبدیلی سے اندازہ لگاتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس ملک کے 90فیصد سے زیادہ وسائل پر محض چند فیصد دولت مندوں کا قبضہ ہو اور کروڑوں لوگ ناداروں کی صف میں کھڑے ہوں، یہ اعداد و شمار ان کی حالت راز سے کسی طور مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لئے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا دعویٰ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اس کے ثمرات نچلی سطح پر عام آدمی تک پہنچیں اور بدقسمتی سے عام آدمی کی حالت آج بھی ناگفتہ بہ ہے جس کے مظاہر کئی شکلوں میں زمین پر نظر آتے ہیں۔ حکومتوں کو اس حوالے سے اپنی توجہ غریبوں کی حالت بہتر بنانے اورانہیں تعلیم صحت اور روزگار سمیت تمام سہولتیں مہیا کرنے پر مرکوز رکھنی چاہئے۔

.
تازہ ترین