• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک فلسفی کا کہنا ہے کہ زندگی الجھی ہوئی ڈور کی مانند ہوتی ہے لیکن میں جب اپنے سات دہائیوں پر پھیلے ہوئے زندگی کے سفر پر نگاہ ڈالتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے میری زندگی الجھی ہوئی دھاگے کی ڈور نہیں تھی بلکہ ایک طویل پگڈنڈی پر سفر تھا۔ اس سفر کے دوران موڑ بھی آتے رہے، اتار چڑھائو، تنزل و عروج اور بعض دفعہ گہری گھاٹیوں سے بھی گزرنے کا تجربہ ہوالیکن سفر بہرحال جاری رہا۔ جوانی تک انسان کو پیچھے مڑ کر دیکھنے اور غور کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی فرصت۔ انسان اپنی لگن میں زندگی کی شاہراہ پر چلتا ہی رہتا ہے لیکن ستر سال کے قریب پہنچ کر اسے دم لینے اور رک کر پیچھے دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی کی گاڑی خود ہی موڑ مڑتی، نشیب میں جا کر فراز کی جانب بڑھتی اور دائیں بائیں چلتی رہی ہے۔ اگرچہ انسان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے، اسٹیرنگ اپنے ہاتھوں میں ہوتا ہے لیکن اکثر انجانے طور پر زندگی کی گاڑی خود ہی موڑ مڑ لیتی ہے، خود ہی ٹریک بدل لیتی ہے اور بڑے بڑے فیصلے اس طرح سرزد ہو جاتے ہیں کہ ان میں انسان کا اپنا ہاتھ شامل نہیں ہوتا۔ میں بہت بڑے بڑے فیصلوں کی بات نہیں کررہا، چھوٹے چھوٹے مشاہدات و تجربات کا ذکر کررہا ہوں۔ بڑے فیصلوں سے مراد اس طرح کے فیصلے ہیں جو انسانی زندگی کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے اپنا ایک عزیز دوست یاد آرہا ہے جو نہایت ذہین، لائق فائق اور کلاس میں ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتا تھا۔ اس کے والدین بیٹے کے مستقبل کے حوالے سے ہزاروں خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے۔ میرے جیسے دوست اس کی محبت اور ذہانت پر رشک کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ وہ ایک دن نام پیدا کرے گا اور بہت بڑا انسان بنے گا۔ وہ کار کے ایک حادثے میں اپنا جسم گنوا بیٹھا، نچلا دھڑ مردہ ہوگیا اور صرف دل سے لے کر دماغ تک جسم زندہ رہا۔ زندگی مکمل طور پر بدل گئی، چڑھتا سورج غروب ہوگیا اور دوستوں کے لئے قابل رشک دوست قابل رحم بن گیا۔
دوسری طرف ہمارے ہی گروپ میں بعض ایسے بھی کلاس فیلو اور دوست تھے جو نہایت نارمل، معمولی اور عام سے طالب علم، عام سے انسان اور معمول کی زندگی گزارنے والے تھے۔ نہ کبھی امتحانات میں پوزیشنیں لیں، نہ کالج کی زندگی کے کسی شعبے میں چمکے یا آگے بڑھے اور نہ ہی ان کی شخصیتوں میں کوئی شعلہ، کوئی کرن کوئی Sparkنظر آتا تھا۔ عملی زندگی کے میدان میں اترے تو وہ اپنے اپنے شعبوں میں چھوٹے چھوٹے روشنی کے مینار بن گئے۔ کوئی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر قوم و ملک کی زندگی کے فیصلوں میں شریک ہوگیا، کوئی بڑا ادیب بن کر لوگوں کی نگاہوں میں محترم ہوگیا، کوئی قومی سطح کا کھلاڑی بنا تو کوئی اتنا بڑا عالم دین، مفسر قرآن اور عاشق رسول بنا کہ لوگ اس کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے ہیں، اس کا نام سنتے ہی مودب ہو جاتے ہیں، اس کی باتیں یوں سنتے ہیں جیسے گویا آسمانوں سے نازل ہورہی ہوں اور وہ یوں دلوں پر حکومت کرتا ہے کہ جب چاہتا ہے لوگوں کو رلاتا ہے، سیرت نبوی ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کے چشمے بہنے لگتے ہیں۔ حکمران اس سے ملنا اعزاز سمجھتے ہیں اور عام لوگ اس سے ہاتھ ملانا ثواب سمجھتے ہیں۔ ایک وہ ’’پڑھاکو‘‘ قسم کا غور و فکر میں گم نوجوان بھی تھا جو مطالعے کا بے پناہ شوق اور ذوق رکھتا تھا اور فلسفے پہ لیکچر دیا کرتا تھا۔ عملی زندگی کے سفر پہ روانہ ہوا تو شاید کہیں، کسی منزل یا پڑائو پر، کسی ولی اللہ کی نگاہ میں آگیا، روحانیت کا اسیر ہوگیا، اللہ پاک نے اس کا باطن روشن کردیا اور اپنے بے پایاں خزانوں سے اسے تھوڑا سا علم بھی عطا کردیا۔ اب و ہ صوفی ہے جس کی نگاہوں کے لوگ طلب گار رہتے ہیں، دنیاوی حوالے سے بڑے لوگ اور بعض بہت ہی بڑے لوگ اس سے ملاقات کی تمنا کرتے ہیں لیکن وہ اپنے حال میں مست رہتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی اپنی کیفیت میں ہو تو سینکڑوں میل دور بیٹھے فون کرنے والے کے دل کا حال بتا دیتا ہے۔ اس کی مشکل آسان بنا دیتا ہے، ایسی بیماری جس تک ڈاکٹر بھی پہنچ نہ سکے ہوں اس کی تشخیص کردیتا ہے۔ اس گروہ سے بعض نہایت اوسط درجے کے دوست ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بن گئے جب کہ کالج میں ہم نے انہیں ہمیشہ مستقبل کا کلرک یا ہائی کلرک سمجھا۔ کچھ ڈاکٹر بننے کالج میں آئے تھے وہ فوج میں کمیشن لے کر بڑے افسران بن گئے اور کچھ وکیل بن کر روپیہ اور نام کمانا چاہتے تھے، وہ سیکشن آفیسر بن کر فائلوں پر مکھیاں مارنے میں مصروف ہوگئے۔ کم، بہت کم ایسے تھے جن کے خواب شرمندہ تعبیر ہوئے، وہ وہی بنے جو وہ بننا چاہتے تھے، ان کا عزم اور پہاڑ جیسا ارادہ انہیں اپنی راہ سے ہٹا نہ سکا ورنہ اکثریت۔ بہت بڑی اکثریت مجھ جیسی تھی جن کی زندگی کی گاڑی خود بخود موڑ مڑتی رہی، کانٹے بدلتی رہی اور چھوٹے موٹے واقعات و حادثات ان کی زندگی کا رخ موڑتے رہے۔ پھر وہ واقعات، حادثات اور موڑ ایسے تھے جن پر انہیں کوئی کنٹرول نہیں تھا، جن پر ان کا بس نہیں چلتا تھا۔ بس وہ آتے رہے اور زندگی کا رخ متعین کرتے رہے۔ شناسائوں کے ہجوم میں وہ بھی تھا جو مجھے نہایت خوبصورت لگتا تھا۔ اس کی آنکھیں جھیل کی مانند گہری اور فراق کی مانند اداس تھیں۔ لائق اور ذہین تھا۔ وہ سی ایس پی افسر بننا چاہتا تھا اور مجھے یقین تھا کہ ایک دن وہ کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر پایا جائے گا۔ بی اے کرتے ہی ایک حسینہ کی زلف کا اسیر ہوا، محبت میں دیوانہ ہوا، والدین نے غصے میں آکر اسے علیحدہ کردیا، جیب خالی ہوگئی تو اپنی محبوبہ سے سول میرج کر کے پیٹ پالنے کے لئے اسکول کا ٹیچر بن گیا۔ وہ جو زند گی میں ابھرنے، نمایاں ہونے اور اہمیت کے تخت پر جلوہ افروز ہونے کے خواب دیکھتا تھا انسانوں کے ہجوم میں کہیں گم ہوگیا۔ والدین کی دعائیں کام آئیں نہ مجھ جیسے دوستوں کی نصیحتیں۔ خود میری زندگی بے شمار واقعات و حوادث سے عبارت ہے۔ زندگی کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے پیش آنے والے واقعات اور رونما ہونے والے حوادث زندگی کو متاثر کرتے رہے، تبدیلیاں لاتے رہے اور بعض ایسے فیصلے سرزد ہوتے رہے جن میں میرا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ جہاں کہیں عمل دخل تھا وہاںبھی بعض اوقات میں بے بس رہا۔ کہانی لمبی ہے لیکن بات مختصر سی اتنی ہے کہ زندگی الجھی ہوئی ڈور نہیں۔ یہ ایک سیدھی سادی پگڈنڈی ہے جس پر انسان چلتا رہتا ہے۔ اس میں اتار، چڑھائو، ٹھوکریں، گرنے، سنبھلنے، عروج و زوال کے مقامات بھی آتے ہیں اور چھوٹے بڑے موڑ بھی، امتحانات بھی اور آزمائشیں بھی، ناگہانی مصیبتیں بھی اور غیر متوقع انعامات بھی۔ میں زندگی کی اس پگڈنڈی کو مقدر کی شاہراہ سمجھتا ہوں جس پر سفر کے دوران کچھ فیصلے آپ خود کرتے ہیں یا کروائے جاتے ہیں لیکن بہت سے فیصلوں میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اور پھر انسان وہ بن جاتا ہے جو اسے بننا ہوتا ہے۔ کچھ کلیاں بن کھلے مرجھا جاتی ہیں اور کچھ کلیاں کھل کر ایسے پھول بنتی ہیں کہ ان کی خوشبو سے گلشن مہک اٹھتا ہے۔

.
تازہ ترین