• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا سخت جاں اسٹیٹس کو ٹوٹے نہ ٹوٹے یا ٹوٹنا محال ہو، بہرحال دنیا کا ٹوٹ رہا ہے۔ حتیٰ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ’’ہمارا عدالتی نظام ٹوٹ چکا، نیا حکم نامہ جلد جاری کروں گا‘‘۔ طوفانی امریکی صدر کا یہ اعلان کوئی معمولی نہیں، بہت غیر معمولی ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران عظیم برطانوی وزیراعظم چرچل کے اس تاریخی استفسار کی یاد دلاتا ہے کہ جب انہیں لندن پر جرمنوں کی تباہ کن ہوائی بمباری سے آگاہ کیا تو انہوں نے پوچھا کہ ’’ہماری عدالتیں تو صحیح کام کر رہی ہیں؟۔ انہیں بتایا گیا ’’وہ تو کر رہی ہیں‘‘، جس پر انہوں نے اپنی قوم کو درست ثابت ہونے والی یہ تاریخی یقین دہانی کرائی کہ ’’جب تک ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں، برطانیہ کی سلامتی کو کچھ نہیں ہو سکتا‘‘ نرالے امریکی صدر نے کوئی استفسار نہیں کیا، کھلم کھلا اعتراف کیا ہے کہ ’’ہمارا عدالتی نظام ٹوٹ چکا‘‘ اور انہیں اس کے ٹوٹنے کا اتنا یقین ہے کہ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ نئے نظام کا حکم نامہ آج یا کل جاری کروں گا۔ اور نئے آرڈر میں معمولی تبدیلی ہو گی۔ اب یہ ’’معمولی تبدیلی‘‘ تو خود ٹرمپ صاحب نے کہا ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس ’’معمولی‘‘ کو امریکی جج صاحبان اور قوم بھی ہضم کر پاتی ہے؟ پھر ’’معمولی تبدیلی‘‘ ہی ہونے والی ہے تو امریکی صدر نے ’’عدالتی نظام‘‘ کے ٹوٹنے کا چونکا دینے والا اعترافی اعلان کیوں کیا؟ اعلان سے پہلے امریکہ کے نو منتخب صدر کا اپنے ملکی نظام عدل پر ایسا ہی دھماکہ خیز انداز ابلاغ اور اب اس پر سچے دل سے عملدرآمد بذات خود کتنی بڑی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ بات یہیں نہیں رکی، ان کی روسی صدر پیوٹن سے دوستی اور تبدیل شدہ پالیسی کے واضح اشارے کوئی تھوڑی تبدیلی ہے جبکہ قریب ترین پس منظر میں، امریکہ یوکرائن، شام اور عراق میں بدستور پھنسا ہوا ہے۔ واشنگٹن میں ہر انتظامیہ کی تبدیلی کے ساتھ کچھ رنگ تو ضرور تبدیل ہوتے ہیں لیکن کون جانتا تھا کہ امریکہ کے بڑے پختہ رنگ اپنے صدارتی اختیار سے کھرچنے والا نیا صدر اپنی انتخابی مہم میں جو کچھ کہہ چکا وہ کچھ کرے گا بھی۔
ہمارے ہاں سیانے کہتے ہیں ’’عالم جو کہتا ہے وہ کرو اور جو کرتا ہے، اس سے بچو‘‘۔ یہ بیچارے علماءپر کہنا کچھ کرنا کچھ، یعنی۔۔۔ الزام ہے۔ ادھر امریکہ میں صدر ٹرمپ ثابت کر رہے ہیں کہ انہوں نے انتخابی مہم میں جو جو کچھ چونکا دینے والا کہا تھا، وہ کر بھی رہے ہیں، وہ بھی بڑے جذبے اور سرعت کے ساتھ۔ انہوں نے اپنی انتخابی شکست سے متعلق بڑے بڑے امریکی پنڈتوں اور میڈیا کے دعوے ہی غلط ثابت نہیں کئے، ان کے یہ اندازے بھی غلط ثابت کر دیئے کہ ’’ٹرمپ صاحب نے انتخابی مہم میں جو کچھ دھماکہ خیز کہا ہے، وہ ہو گا نہیں، صدر بنتے ہی ان کی بارودی بیان بازی، پلٹ کر ذمہ دارانہ پالیسیوں اور امریکی مفاد کے تابع ہو جائے گی‘‘۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مخالفین اور میڈیا کے یہ اندازے بھی غلط ثابت کر کے واضح کر دیا کہ انہوں نے انتخابی جلسوں میں جو دھماکہ خیز ابلاغ کیا تھا وہی امریکی مفاد میں ہے اور وہ اس کے مطابق سب کچھ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور اس میں تاخیر کے قائل نہیں۔ آفٹر تھاٹ، نظرثانی اور شیئرڈ ڈسیژن میکنگ ان کی ڈکشنری میں نہیں سو، اسٹیٹس کو ایسے بھی ٹوٹنا ہے اور یہ کوئی اب امریکہ تک ہی محدود نہیں رہا۔ فلپائن جس کے دفاع کا ٹھیکہ گزشتہ سال تک واشنگٹن کے پاس رہا ہے، نئے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑھ کر ہیں، وہ اپنے تقریباً ہر سیاسی ابلاغ میں امریکہ کو ایسی بے نقط سناتے ہیں کہ آنجہانی کاسترو اور شیوڈ ناڈزمے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ادھر بحر جنوبی چین میں پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال ایک بار پھر جاپان کی عسکری بحالی کے امکانات پیدا کر رہی ہے۔ ہمسائے میں بھی شری مودی پاکستان کو تنہا کرنے کی بڑھکیں لگاتے لگاتے بحر ہند کی بے مثال امن کوششوں سے باہر۔ آج پاکستان چین، امریکہ، روس، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اور سری لنکا سمیت نئے پرانے 37ممالک کے ساتھ مل کر اپنی طویل سمندری سرحد پر مشترکہ مشقیں کر رہا ہے۔ مقصد آسٹریلیا سے لے کر یمن اور مشرقی افریقہ تک بحر ہند کے وسیع خطے کو بحر آتش میں تبدیل کرنا ہے جسے ماضی میں چیس بورڈ سمجھا جاتا تھا ایک طرف مودی صاحب کے پاکستان کو تنہا کرنے کے مذموم ارادوں کا دعوئوں کے انداز میں اعلان، دوسری جانب وہ بحر ہند کی تاریخی امن مشقوں سے بھی باہر ہے تو یہ عالمی سیاست کا اسٹیٹس کو نہیں ٹوٹ رہا؟ واضح رہے پاکستان کی بحر ہند کے خطے اور جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطے بنانے کی نئی دہلی کو کی گئی پیشکش بھی پاک بھارت پیچیدہ دو طرفہ تعلقات کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔
پاکستانی یقین رکھیں، اگر وہ اپنے ملک میں قدرت کے عطا کردہ سنہری مواقع کے ساتھ ساتھ خود بھی اپنا گلے سڑے نظام پر مشتمل اسٹیٹس کو خود توڑنے میں کامیاب ہو گئے اور ہماری عدلیہ بھی آج ہی برطانوی اور تاریخ کی اسلامی عدلیہ کی طرح انصاف کی فراہمی کا منبع بن گئیں تو پاکستان بحر ہند کی سب سے بڑی خوشحالی اور پُر امن طاقت بن کر ابھرے گا، ویسے بھی ہمیں بھارت کے مقابل علاقے کی عسکری طاقت بننے کا نشہ کبھی نہیں چڑھا۔ جو کچھ عسکری طاقت میں بڑھوتری ہوتی بھارتی مذموم عزائم کے ذریعے اللہ نے عطا کی، وگرنہ ہم کیا اور ہمارے حاکم کیا وہ ہم خود بھی جانتے ہیں۔ واقعی پاکستان مملکت خداداد ہے، لیکن ہمیں اپنی یہی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے اپنا اسٹیٹس کو بھی توڑنا پڑے گا، اللہ ہمارے بزرگوں کی بے مثال کوششوں اور شہیدوں کی عظیم قربانیوں کے باعث ڈھیل پر ڈھیل دیئے جا رہا ہے خدارا! ہم خود بھی کچھ تبدیل ہو جائیں۔ وما علینا الا البلاغ

.
تازہ ترین