• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی 2013ء کے الیکشن کے بعد جب ن لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو نادرا کے چیئرمین طارق ملک تھے۔ چیئرمین نادرا بننے سے پہلے وہ امریکہ میںتھے، دنیا بھر کی کمپنیاں طارق ملک کے پیچھے پیچھے پھرتی تھیں اسے کئی ملکوں نے پیشکش کی مگر وہ ملک کی محبت میں پاکستان چلا آیا۔ یہ اتفاق ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چیئرمین نادرا بنا۔اس دوران اس نے جم کر کام کیا کئی ملکوں سے معاہدے بھی کئے اسے ہر دم ملکی مفاد عزیز رہا، سارک کے کئی ممالک ہمارے محتاج ہو گئے تھے کہ ڈیٹابیس انٹری کے لئے وہ ہم سے مدد لینا چاہتے تھے کہ اس دوران الیکشن ہوا، الیکشن میں جو کچھ کیا گیا تھا اسے چھپانے کیلئے ن لیگ کی حکومت طارق ملک کے پیچھے پڑ گئی۔اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ اگر چیئرمین نادرا طارق ملک رہا تو پھر ووٹوں کی تصدیق کے سارے مراحل صاف شفاف ہوں گے پھر تو مبینہ دھاندلی کا پول کھل جائے گا، چیئرمین نادرا کو ہٹانے کیلئے وفاقی حکومت نے جو راستے اختیار کئے وہ کسی طور بھی مناسب نہیں تھے حکومت کے زیر اثر کچھ اداروں نے طارق ملک کی فیملی اور بچوں کو بہت ہراساں کیا، خود ملک صاحب کو زندگی کے مشکل ترین حالات سے گزرنا پڑا۔افسوس مسلم لیگ کی حکومت کو یہ خیال بھی نہ آیا کہ وہ جس شخص کے پیچھے پڑی ہوئی ہے وہ شخص ملک کے ممتاز دانشور، محقق اور اقبالیات کے ماہر پروفیسر فتح محمد ملک کا فرزند ہے، حکومت کو یہ خیال بھی نہ آیا کہ طارق ملک کا دوسرا بھائی طاہر ملک پروفیسر ہے، درس و تدریس سے وابستہ لوگ کس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں یہ راز موجودہ حکومت سے پہلے کسی کو نہیں پتہ تھا، یہ صرف اسی حکومت نے بتایا کہ دشمن ملک کے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں ضرور جانا چاہئے اور اگر کوئی شخص سینے میں وطن کی محبت لئے چیئرمین نادرا ہو تو ضرور ہٹانا چاہئے، پھر یہ ہوا کہ ہر روز کی دھمکیاں کام کر گئیں، طارق ملک نے صرف جاب ہی نہیں چھوڑی بلکہ وہ بیوی بچوں سمیت جلاوطن ہو گیا، اس کی اس جلاوطنی پر کئی اداروں کے سربراہ خاموش رہے، خاص طور پر دو ایسے ادارے جن کے بارے میں مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ دھاندلی کا حصہ تھے۔ طارق ملک کے بارے میں جبر کے جس راستے کو چنا گیا اس پر چند لکھنے والوں نے احتجاج کیا، سیاست دانوں میں صرف عمران خان ایسا تھا جس نے جلسوں، ریلیوں اور پریس کانفرنسوں میں صدائے احتجاج بلند کی، پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں نے وہی اگرمگر لگا کر ہلکا پھلکا احتجاج کرکے شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کی۔
جی ہاں، خواتین و حضرات! آج وہی طارق ملک اقوام متحدہ میں چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر ہے۔طارق ملک کا انتخاب دنیا بھر کے 171بہترین پروفیشنل امیدواروں میں سے کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں پچھلے کئی مہینوں سے اقوام متحدہ کے اندر ٹیسٹ اور انٹرویوز ہو رہے تھے، طارق ملک دنیا بھر میں سے بہترین پروفیشنل قرار پایا یہ آدمی بھی کمال آدمی ہے اس نے اقوام متحدہ میں چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر بننے کے بعد پہلے انٹرویو میں کہا کہ ’’...میں پاکستان کا نام ر وشن کروں گا...‘‘ یہ اس شخص کا جملہ ہے جسے پاکستان کی موجودہ حکومت نے دھکے دیکر نکالا تھا، اس کے بچوں کو ہراساں کیا تھا، اس کے خاندان کو دھمکیاں دی تھیں۔طارق ملک کا انتخاب ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے، وہ اہلکار آج نادم تو ہوں گے جو اس کے بیوی بچوں کو ہراساں کرتے تھے انہیں شرم تو آتی ہو گی کہ کسی کے بیوی بچوں کو ہراساں نہیں کرنا چاہئے، شاید انہیں ایک وزیر کی تقریر یاد آتی ہو جو اسمبلی میں کہتا تھا ’’...کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے ....‘‘ اہلکاروں کو ان کا اپنا وزیر بھی یاد آتا ہو گا، جس کا ’’آپریشن‘‘ ولایت میں ہوتا ہے، جو دھرنوں کے دوران بقول عمران خان ’’...وہ ایسے پھرتا ہے جیسے فیلڈمارشل ہو...‘‘
میں یہ سطور لکھ رہا ہوں کہ میرا دوست بشیرا مگرمچھ آگیا ہے، بشیرے نے لکھے ہوئے تمام صفحات پڑھ کر میری طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔میں نے بشیرے سے کہا کیا دیکھتا ہے، کہنے لگا ’’...تم نہیںسمجھوگے، تم کیا سمجھتے ہو کہ طارق ملک کے جانے کے بعد حکومتی کارندے آرام سے بیٹھے ہوں گے، وہ آج بھی کسی نہ کسی طارق ملک کو ہراساں کر رہے ہوں گے، آج بھی کوئی نہ کوئی وفاقی وزیرکسی ایسے شخص کے پیچھے پڑا ہو گا جو پاکستان کی محبت میں کام کر رہا ہو گا، تم نہیں سمجھتے، تمہیں پتہ نہیں کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کو اپنا مفاد عزیز ہے، وہ اجتماعی ترقی کے قائل ہی نہیں، ان کی سوچ اپنے سے آگے نہیں جاتی اگر وہ ’’جاتی امرا‘‘ سے آگے دیکھیں تو انہیں کچھ دکھائی دے، باقی رہ گئے کارندے، تو بابا کارندوں کا یہی کام ہے، حکمران کوئی بھی ہو، یہ کارندے اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے، ان کے ہاتھوں میں باجے ہیں، گلے میں ڈھول ہے، اور باقی سب گول مول ہے ...‘‘
جونہی بشیرے مگرمچھ نے بات ختم کی تو میں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب دوچار سطریں لکھ لوں گا لیکن بشیرے کا اداس ’’چہرہ‘‘ دیکھ کر مجھے پھر سے پوچھنا پڑا کہ بشیرے آج تو اداس لگ رہا ہے، تجھے کیا پریشانی ہے ؟میرے اس سادے سے سوال پر بشیرا بولا ’’....میں نے پہلے جو بات کی ہے اس کے آخر میں لفظ گول مول بولا ہے۔دراصل اس کا مطلب ہے کہ یہاں سب کچھ کھایا پیا جاتا ہے، یہاں حلال حرام کی کوئی تمیز نہیں، حکومتیں کرنے والے لوگ اپنے لئے سب کچھ کر جاتے ہیں انہیں اس بات کا خیال ہی نہیں ہے کہ ان کے اس عمل سے ملک کا کتنابڑا نقصان ہو رہا ہے، یہاں نظام اور ادارے اسی لئے ناکام ہو رہے ہیں کہ حکمران انہیں کسی سسٹم سے چلنے نہیں دیتے۔جہاں تک پریشانی کا سوال ہے تو پریشان ہونا بنتا ہے کیونکہ ہمارے بچے ایم اے اور پی ایچ ڈی کرکے بھی دھکے کھا رہے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے بچے بیس بائیس سال کی عمروں میں ارب پتی بن جاتے ہیں، ان ’’ بچوں‘‘ کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے والدین سے ایک دھیلا بھی نہیں لیتے، اپنے باپ سے کوئی کوڑی لئے بغیر یہ بچے ’’جناتی کام‘‘ کر جاتے ہیں، میں تو اسی بات پر حیران بھی ہوں اور پریشان بھی کہ یہ کیا کھیل ہے، یہ دولت اچانک آسمان سے گرتی ہے یا زمین میں اگتی ہے، طارق ملک اتنا کام کرکے بھی ارب پتی نہیں بنے گا جبکہ کچھ لوگوں کے بچے کچھ نہ کرکے بھی ارب تو کیا کھرب پتی بن جاتے ہیں میں حیرت کی دنیا میں گم ہوں کہ یہ کیا ماجرا ہے، معجزہ اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ معجزوں کیلئے عمریں کاٹنی پڑتی ہیں، چلہ کشی کرنا پڑتی ہے، ویسے تو آج کل معجزوں کا دور رہا نہیں لہٰذا میں اسے ماجرا ہی سمجھتا ہوں مگر یہ ماجرا میری سمجھ سے بالا ہے۔ماجرا سمجھنے کیلئے انصاف کرنا پڑے گا، عام طور پر مجھے تمہارا ایک شعر بہت یاد آتا ہے کہ
بستی میں یہ کس نے درد بکھیرے تھے
روشن دن تھا، چاروں سمت اندھیرے تھے

.
تازہ ترین