• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے لئے امریکی ویزے کے اجرا میں تاخیر پر سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سینیٹ کا کوئی رکن امریکہ جائے گا اور نہ پاکستان میں امریکی کانگریس کے کسی رکن کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ امریکہ نے سات ملکوں کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کیں تو عمران خان نے خواہش ظاہر کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی شہریوں پر بھی ویزا پابندیاں عائد کریں۔ عمران خان کو توقع ہے کہ وہ ایسی پابندیوں کے بعد پاکستان کو ٹھیک کر دیں گے اور اس کا امتحان یہ ہو گا کہ عمران خان بھی امریکی شہریوں کے پاکستان میں داخلے پر پابندیاں لگا سکیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے امریکہ کا انتہا پسند چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو بھی نئی امریکی حکومت کی پالیسیوں پر گرجنے برسنے کا اچھا موقع مل گیا ہے۔ شعلہ بیانی کے اس موسم میں حکومت اور مسلم لیگ نواز کی قیادت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ عمران خان، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق کا نقطہ نظر بڑی حد تک قابل فہم ہے۔ رضاربانی پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے قوم پرست رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں مقبولیت پسند سادہ لوحی، مسیحائی عجلت پسندی، کوتاہ فکری، تفرقے اور امتیاز کے نشانات واضح ہیں اور ایسی سیاست کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک سپر پاور کی عالمی پالیسیوں میں تبدیلی سے پاکستان کی سیاسی صف بندیوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
امریکہ معیشت، سیاست اور فوجی قوت میں عالمی بالادستی رکھتا ہے۔ ہمعصر دنیا میں بہت سی ابھرتی ہوئی قوتیں اپنے لئے قائدانہ کردار کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ ہماری معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ ہم عالمی سطح پر مکے بازی میں حصہ لے سکیں۔ ہماری معاشرت میں بہت سے الجھائو ہیں۔ علمی سطح پر ہم بہت پسماندہ ہیں۔ ہماری سیاست کا گھونسلہ نازک سی شاخوں پر رکھا ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کو چند در چند مشکلات کا سامنا ہے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم غیر ضروری طور پر مخاصمانہ رویہ اختیار کئے بغیر اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ چند سال قبل دہشت گردی ہماری ریاست کے لئے وجودی خطرے کا نشان بن گئی تھی۔ یہ خطرہ اب بڑی حد تک کم ہوا ہے۔خطے میں رونما ہونے والی معاشی تبدیلیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے کچھ مواقع پیدا کئے ہیں۔ اقتصادی راہداری کی تعمیر اور توانائی کے منصوبے اسی کا نتیجہ ہیں۔ ان مواقع کو قوم کی مجموعی تعمیر میں بروئے کار لانا چاہئے۔ ہماری معیشت میں بہتری کے کچھ اشاریے نمودار ہوئے ہیں۔ترقی کی شرح نمو میں بہتری کے علاوہ متوسط طبقے میں پھیلائو پیدا ہو رہا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سرمایہ دار ہمارے ملکی استحکام پر اعتماد کر رہے ہیں۔ تاہم تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ہمارا مصنوعات کا شعبہ کمزور ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں فرق بہت زیادہ ہے۔ ہماری پیداواری صلاحیت میں ترقی کی بہت گنجائش ہے۔ ہمارے تعلیمی معیار کی پسماندگی معیشت کے لئے اچھی خبر نہیں۔ ملک کی آدھی آبادی یعنی عورتوں کو ہم نے معیشت میں شرکت سے محروم کر رکھا ہے۔ ہمارا نوجوان طبقہ اپنی آزادیوں اور پیشہ ورانہ امکانات کے ضمن میں پاکستان پر بھروسہ نہیں کرتا۔ معیشت میں بہتری کے آثار ضرور نظر آرہے ہیں لیکن پائیدار ترقی کی بنیادیں رکھنا ابھی باقی ہے۔
ہماری تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جمہوری عمل کسی تعطل کے بغیر دوسری مرتبہ آئینی میعاد پوری کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سے سیاست میں زیادہ حقیقت پسندی جنم لے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہماری سیاست ان رجحانات سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی جو ماضی میں ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہے ہیں۔ ہمارا ملک سوچ کے اعتبار سے قطبیت کا شکار ہے۔ ہمارے ہاں معیشت اور معاشرت کے قومی اہداف کے بارے میں وسیع تر اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ ہم تاریخ کے بڑے دھارے کا حصہ ہونے کی بجائے استثنائی کردار کا شکار ہیں۔ ہم نے جدید علوم اور اقدار کے خلاف مزاحمت پر کمر باندھ رکھی ہے۔ کسی بھی قوم میں جدید اور قدیم کی کشمکش دراصل نئے اور پرانے مفاد میں تصادم پر قائم ہوتی ہے۔ پرانے مفاد میں مراعات اور استحصال کا ایک بندوبست مرتب ہو جاتا ہے۔ نیا مفاد اس بندوبست کو تبدیل کر نے کی خواہش رکھتا ہے۔ مراعات کا یہ نظام پدرسری اقدار کی صورت میں پایا جائے یا زرعی اراضی کی ملکیت میں، سیاسی فیصلہ سازی پر اجارے کی صورت میں موجود ہو یا مذہبی بنیاد پر تفرقے کی شکل اختیار کرے، معاشرے میں ناہمواری پیدا کرتا ہے۔مشکل یہ ہے کہ سیاسی منظر پر معیشت اور معاشرت میں تبدیلی کی آوازیں کمزور ہیں۔ معاشرے کے اندر قدامت پسندعناصر بیرونی دنیا کے ساتھ مخاصمت اور تصادم کا رجحان رکھتے ہیں۔ داخلی پسماندگی کے باعث تفرقے اور منافرت کی بات کرنا آسان ہے۔ تعلیم کو اولین قومی ترجیح بنائے بغیر معاشرے میں تبدیلی کی قوتوں کو جائز آواز نہیں مل سکتی۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ جمہوری بندوبست اور معاشی ترقی کی علمبردار سیاسی قوتیں تعلیم اور اجتماعی مکالمے کا باہم ربط سمجھنے پر تیار نہیں ہیں۔ مقبولیت پسند سیاست عوام کی شعوری پسماندگی پر بھروسہ کرتی ہے۔ حقیقت پسند سیاست کو شفافیت اور وسیع تر رواداری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہا پسندی کیا ہے؟ وہ امریکی معاشرے میں سفید فام، مرد انہ بالادستی، سرمایہ دار اور مقامیت پسند رجحانات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہی انتہا پسندی مذہبی منافرت، قدامت پسندی، عورت دشمنی اور امتیازی رجحانات کی صورت میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں عالمی تبدیلیوں کی آڑ میں اپنے ملک کے اندر موجود انتہا پسندی کو مزید مہلت دینا ہے یا ایک حقیقت پسند قوم کی طرح اپنا لائحہ عمل طے کر کے آگے بڑھنا ہے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ خطے میں اور دنیا بھر میں کسی قوم کے ساتھ غیر ضروری دشمنی یا جذباتی وابستگی اختیار کئے بغیر اپنے قومی مفادات کی پاسداری کی جائے۔ ہمارے پاس آبادی، رقبے اورمحل وقوع کے اثاثے موجود ہیں۔ بڑی تعداد میں متوسط طبقہ بھی موجود ہے۔ گزشتہ ایک سو برس کی تاریخ میں ہم دنیا کی کئی دوسری قوموں کی نسبت عالمی دھارے سے قریبی رابطے میں رہے ہیں۔ ہمیں ان مثبت اشاریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی قوم کی تعمیر شروع کرنی چاہئے۔ یہ سوچنا قطعاً مناسب نہیں کہ امریکہ پاکستان کو بھی اپنے علانیہ دشمنوں میں شمار کرے تو ہم داخلی طور پر زیادہ متحد ہو سکیں گے۔ بیرونی دنیا سے دشمنی کی بنیاد پر قائم ہونے والا اتحاد وقتی ابال سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ تاریخ نے بتایا ہے کہ ترقی کرنے والی قومیں مفاد اور عصبیت میں واضح فرق کرتی ہیں۔ ہمیں اپنے مفاد کو آگے بڑھانے کے لئے تعصب کا ایندھن نہیں چاہئے۔ ہمیں اپنے آئین کی پاسداری کرنی چاہئے۔ اپنی قوم کے پیداواری امکان پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ پاکستانی عوام کے شعور پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ہمیں انحراف اور تصادم کی بجائے مکالمے اور مقابلے کی ثقافت اپنانی چاہئے۔

.
تازہ ترین