• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ن لیگ، پی ٹی آئی دنگل کب ختم ہو گا؟
رانا ثناء اللہ:ہر وقت رونا عمران خان اور شیخ رشید کا مقدر بن چکا ہے۔
سعد رفیق:عمران خان کو سیاست سیکھنی ہو گی، عابد شیر علی:سب سے بڑے جواری عمران کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے، محمود الرشید:شہباز شریف نے لندن میں بھی ڈیفالٹ کیا نا اہل قرار دیا جائے۔ ترجمان پی ٹی آئی:سعد رفیق کرپشن کی سیاست نہ سکھائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
سیدھی سی بات سیدھی سی سیاست کی یہ ہے کہ سب پارٹیاں اپنی اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر کریں عوام کے مسائل جانیں اور جمہوری ایوانوں میں ان کے حل کے لئے حکومت پر پارلیمانی دبائو ڈالیں، لوگوں سے رابطہ استوار کریں، آئندہ انتخابات کی تیاری کریں، اپنی جماعتوں میں تطہیر کا عمل جاری کریں، لیکن یہ کپتی کوٹھے ٹپنی ٹائپ کی سیاسی بیان بازی نہ کریں، پہلے تین بیانات وزراء کرام کے ہیں، ان کی زبان، لفظوں کا چنائو اور فقرے بازی کا ہنر ملاحظہ کریں پھر پی ٹی آئی کے دو بیان بھی دیکھ لیں کہ وہ کسی انتہا کو چھو رہے ہیں، کیا یہ ضروری ہے کہ ن لیگی وزیر اپنا منصبی کام چھوڑ کر اپنے قائد کا دفاع کرنے کے لئے چمڑے کا ٹکڑا لے کر میدان میں اتریں اور پٹری سے اترتے چلے جائیں، رانا ثناء فرمائیں کہ کیا ان کو ہر وقت جواب آں غزل دینے کا رونا نہیں پڑا ہوا اور کیا ان کی تقدیر عمران خان سے مختلف ہے، سعد رفیق جس مقام و مرتبے کے سیاست دان ہیں اتنے ہی عمران خان بھی ہیں، پھر یہ ایک دوسرے کو سیاست سکھانے کی باتیں کرنا کیا اپنی غیر سیاسی ذہنیت کا اظہار نہیں، اور عابد شیر علی نے تو حق وزارت ادا کرنے کے حق رشتہ داری اس قدر ناحق انداز میں ادا کیا، کہ ہم حیران رہ گئے عمران خان بارے کون نہیں جانتا کہ انہوں نے کرکٹ میں جوا کھیلا نہ کھیلنے دیا اور ملک کو ورلڈ کپ لا کر دیا، یہ سڑکیں ن لیگ کیا گھسیٹنے کے لئے بنا رہی ہے، کیونکہ اگر عمران خان کو عابد شیر علی گھسیٹ سکتے ہیں تو پھر ان کے اس قدر جارحانہ انداز گفتگو سے کون بچ پائے گا نواز شریف اپنے وزراء کو اب خاموش رہنے کا اشارہ کر دیں اور عمران خان بھی سنبھل کر بولیں اور دنگل ختم کریں۔
٭٭٭٭
آئندہ کیا ہو گا؟
ہم عام لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو اس ملک میں اکثریت رکھتے ہیں، اور ایک اقلیت جسے سیاسی غیر سیاسی اشرافیہ بھی کہتے ہیں ان کے بارے کچھ کہنے سننے کی چنداں ضرورت نہیں، عوام اس قدر بے اعتباری میں مست ہو گئے ہیں کہ انہیں ایک گونہ قرار سا مل گیا ہے، لگتا ہے انہوں نے کرپشن، اور حکمرانوں، سیاستدانوں کی آنیوں جانیوں کو ان کا ذاتی کام تسلیم کر لیا ہے جو وہ بخوبی انجام دے رہے ہیں، جب حکومت اپوزیشن کوئی دعویٰ کرے، بات کرے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال کر اطمینان سے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں اس خیال کے ساتھ جو کچھ کرنا انہیں خود ہی کرنا ہے، شاید وہ اس کیفیت کو پا چکے ہیں جو غالبؔ نے بھی پا لی تھی؎
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
وہ یہ بھی اب نہیں کہتے کہ بڑے بڑے منصوبے بن رہے ہیں، بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں، بس اتنا کہہ چھوڑتے ہیں یار! دیکھیں گے، ابھی تک تو ہم اپنے گزرے ہوئے کل سے آگے نہیں جا سکے، سیاسی افق پر آئندہ انتخابات میں کیا ہو گا تو نام لینا مشکل ہے کسی کا مگر یہ کہنا بہت آسان ہو گیا ہے کہ کوئی معجزہ ہو گا، جس کا شاید کسی کو یقین ہی نہیں آئے گا، بہلاوا سیاست کا سورج ضرور غروب ہو گا، لوگوں کے لاشعور میں کوئی انجانا انتقام موجود ہے، وہ ضرور شعور کی اوپر والی سطح سے طلوع ہو گا، ان کو بڑی حیرت ہو گی جو کہتے ہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لو۔
٭٭٭٭
سزا اب جزا بن گئی
شاید یہ منفی مہارتوں کا دور ہے کہ جو جتنا بڑا مجرم ہے، اسے سزا ملتی ہے پر نہیں ملتی اس کی پشت پر ایک شیطانی ہاتھ ضرور ہوتا ہے، اکثر جرائم بھی غریبوں کے خلاف ہوتے ہیں دولت والوں کے ہاتھوں، بے اثر بے زر ہونا متاثرین جرم کے لئے سزا اور مجرموں کے لئے جزا کا چلن عام ہے، غیر محفوظ ڈرا ہو غریب مظلوم، ظالم کو اچانک کیوں معاف کر دیتا ہے یہ ہے وہ سوال جو خود ایک جواب اور مجرم کے طاقتور ہونے کی دلیل ہے، اب غریبوں کو امیر کر دیں یا امیروں کو غریب، اور یہ ممکن نہیں اس لئے جو شخص اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف فریادی بن کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے زیادتی کرنے والے کو بقائمی ہوش و حواس زور شور سے نہ صرف پاک صاف قرار دے دیتا ہے بلکہ اپنے ہی دائر کردہ مقدمے کو جعلی کہہ دیتا ہے، یہ ہے ظالم کا دوسرا جرم، اس کی تہہ میں کوئی نہیں جاتا، اور یہ معلوم نہیں کرتا کہ وہ کونسا خوف تھا جس نے مدعی کو اپنے دعوے سے پھیر دیا، جن معاشروں میں ظلم جبر، اثر، اختیار اور دولت کی حکمرانی ہو وہاں مظلوم اپنے اوپر کئے گئے ظلم سے دستبردار ہو جاتا ہے اور یوں ہر شعبۂ زندگی میں مجرم سرخرو ٹھہرتا ہے بے اثر عاجز افراد جان بچانے ہی کو فوقیت دیتے ہیں، جب تک عام آدمی کو تحفظ کا یقین نہیں ہو گا ایسے ہی سزا جزا بنتی رہے گی اور زور و زر کی حکمرانی چلتی رہے گی، اب اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ افراد کا نام لیا جائے سچ کو بے نقاب کیا جائے اب صرف اور صرف اسی یقین کی ضرورت ہے کہ معاشرے کو تحفظ فراہم کیا جائے، ورنہ کمزور ڈر کے مارے اپنے سچ کو جھوٹ قرار دے گا۔
٭٭٭٭
جو نہ کہنا تھا وہ بھی کہہ ڈالا؟
....Oایم بی بی ایس کی ڈگری ڈاکٹروں کی دیہات میں ایک سال ڈیوٹی سے مشروط قرار دینے کا منصوبہ،
کیا یہ وقت بھی آنا تھا مسیحائوں پر!
....Oمولانا فضل الرحمٰن:ٹرمپ نے امریکی چہرہ بے نقاب کر دیا،
امریکی چہرہ بے نقاب تھا ٹرمپ نے نقاب ڈال دیا،
....Oسینیٹر مشاہد اللہ خان:راہ راست پر آ جائیں، عمران کو مشورہ،
عمران پر تبرا پڑھنے کا ن لیگی وزراء و زعماء کو کتنا اجر ملتا ہے؟
اور یہ کہ راہ راست یعنی صراط مستقیم تو ہمارے ہاں موجود ہی نہیں،
اسے مٹا کر ہی تو اس پر سڑکیں تعمیر کر رہے ہیں،
....Oپرویز مشرف:ملک میں گڈ گورننس کا بحران،
قبلہ! آیئے آگے آیئے اور گڈ گورننس لے آیئے!
....Oعابد شیر علی:پاناما کا داغ لیکرالیکشن میں نہیں جائینگے،
اپنے قول پر جمے رہیں، پاناما آپ کا کچھ بگاڑے نہ بگاڑے، ن لیگ کا آپ بہت کچھ بگاڑ دیں گے، نواز شریف اپنے وزیر کے اس بیان کے مضمرات یا مضمرات پر ضرور غور فرمائیں اور وزراء کی اسپیشل ڈیوٹی ختم کر دیں بہتر رہے گا۔


.
تازہ ترین