• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر پر بھارت کی گائیڈ لائن وزیر اعظم جوہر لعل نہرو نے بہت پہلے متعین کردی تھی۔ 1962ء میں ایوب خان امریکہ گئے۔ صدر کینیڈی سے ملاقات کے دوران کشمیر بھی زیر بحث آیا، تو امریکی صدر نے دلجوئی کے چند کلمات کہہ دئیے۔ جس پر پنڈت نہرو آگ بگولہ ہوگئے تھے۔ فرمایاٖ: ’’کسی میں ہمت نہیں کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے مسئلہ کو ری اوپن کرسکے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد مردہ ہوچکی اور اب کشمیر کے مسئلے کا اگر کوئی وجود ہے، تو فقط یہ کہ پاکستان اپنے زیر قبضہ کشمیر سے دستبردارہوجائے۔ ریاست کے حوالے سے استصواب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انتخابات نے کشمیریوں کی امیدوں اور امنگوں کو آشکار کردیا ہے۔ پاکستان میں ہمت ہے تو وہ بھی اپنے مقبوضہ علاقےمیں ہم جیسے انتخابات کا اہتمام کرکے دکھائے‘‘۔
اے۔ایس دولت ،را کے سابق سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دانشور کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی تصنیف Kashmir- The Vajpaye Years نے خاصی شہرت پائی ہے اور بیسٹ سیلر رہی۔ روزنامہ ہندو میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں موصوف نے کہا تھا کہ ’’کشمیر میں پاکستان کی مہم جوئی کائونٹر پراڈکٹو رہی ہے۔ جس کا فائدہ بھارت کو ملا۔ کشمیری خوابوں کی دنیا سے نکل آئے اور خوب جان گئے کہ لڑائی سے سوائے تباہی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ وہ مسئلے کا کوئی آبرومندانہ اور قابل عمل حل چاہتے ہیں۔ انہیں یقین ہوچکاکہ بھارت انہیں کسی بھی قیمت پر ادھر ادھر نہیں ہونے دے گا۔ منموہن سنگھ اور پرویز مشرف نے اس حوالے سے خاصہ کام کیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے کنارے نہ لگ سکے۔ موصوف نے انکشاف کیا کہ آگرہ سمٹ کی راہ ہموار کرنے میں ڈپٹی پرائم منسر کے۔ایل ایڈوانی اور پاکستانی ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی نے شبانہ روز محنت کی تھی۔ جسے یقینی بنانے کے لئے دونوں کے درمیان بیس عدد خفیہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ کشمیر کے حوالے سے آگے بڑھنے کا وہ سنہری موقع تھا، جسے بدقسمتی سے کھو دیا گیا۔ اس سے قبل واجپائی۔ نواز شریف intiative کا بھی وہی حشر ہوا تھا۔ حالانکہ انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت پر مبنی ان کے افکار میں بھی جان تھی اور معاملے کو آگے بڑھایا جاسکتا تھا، وکی لیکس کے مطابق ان افکار کی تصدیق یو۔ایس ایمبیسی دہلی سے واشنگٹن بھیجے جانے والے 21؍اپریل 2009ء کے ایک مراسلے سے بھی ہوتی ہے۔ جس کی گواہی پرویز مشرف بھی متعدد بار دے چکے کہ دونوں ممالک بہت آگے تک جاچکے تھے اور بیک چینلز کی مساعی سے معاہدےکا فائنل ڈرافٹ تک تیار ہوچکا تھا۔ ڈی ملٹرائزیشن، سافٹ بارڈر، علاقےکی مشترکہ مینجمنٹ اور زیادہ سے زیادہ اٹانومی کی بنیادوں پر مشتمل دستاویز، جسے فریقین نے ون ون سچویشن قرار دیا تھا۔ پھر مشرف کا اقتدار لڑکھڑا گیا اور سب کچھ پس منظر میں چلا گیا‘‘ تو کشمیرکےحوالے سے کیا ہم واقعی ٹرین مس کرچکے؟ کیا نواز شریف۔ واجپائی اور مشرف۔ منموہن ’’فتوحات‘‘ اس سلسلے کا وہ ہائی پوائنٹ تھے، مستقبل میں جن تک ہماری رسائی ناممکن ہوچکی؟
بہت برس ہوئے راقم کو انڈیانا یونیورسٹی میں کشمیر پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ جہاں پروفیسر مارک نے کشمیر کے حوالے سے دل کو چھو لینے والی بات کہی تھی۔ فرمایا: ’’سائوتھ ایشیا کے لوگ فطری طور پر نیشنلسٹ ہیں اور یہ تصور ان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتا ہے۔ ملک کی سرحد سکڑ جائے اور زمین کے کسی ٹکڑے سے دستبردارہوجائیں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشمیر کا مستقبل ’’اسٹیٹس کو‘‘ ہے۔ جہاں کوئی ہے، رہنے دیا جائے، اور اس انتظام کو ملکی اور عالمی قوانین کے تابع کردیاجائے زمین کے ایک انچ سے بھی دستبردارہونا بھارت افورڈ کر سکتا ہے اور نہ پاکستان۔ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے دل بعض معاملات میں پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔ مگر ملکی سلامتی کے حوالے سے وہ بھی پاکستانی مسلمانوں سے کم جذباتی نہیں۔ کشمیر پاکستان کو مل جائے، شایدانہیں بھی گوارا نہیں۔ ہر خطے کی اپنی سائیکی ہوتی ہے، جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ سائوتھ ایشیا برطانیہ ہے اور نہ کینیڈا، کہ ریفرنڈم کرا دیں اور نئی ریاست بنادیں‘‘۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ایک موقع پر دونوں ملک سیاچن کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اس برفانی جہنم کو دونوں نے خالی کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ پھر یکایک انڈیا کی طرف سے مطالبہ آیا کہ اس کی پوزیشن کو زمین پر نہیں تو کم از کم نقشوں میں ضرور تسلیم کرلیا جائے۔ جو ظاہر ہے پاکستان کو قابل قبول نہ تھا اور نتیجہ یہ کہ برفانی جہنم آج بھی آن ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال پچھلے دنوں امریکہ میں تھے۔ وزٹ ٹرمپ انتظامیہ کی ویزہ پابندیوں کے حوالے سے تھا، پاکستان ایمبیسی میں کشمیر پر ایک سیمینار سے بھی خطاب کیا۔ جس میں موصوف نے عالمی برادری کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرانے میں مددکرے۔ فرمایا کہ اگر ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے، تو کشمیرمیںکیوںنہیں؟ اور شکوہ کیا کہ کشمیر کو نظرانداز کرکے عالمی برادری ناانصافی اور دہرے معیار کی مرتکب ہورہی ہے۔ ایک سابق سفارت کار اور جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر توقیر حسین نے بھی سیمینار سے خطاب کیا۔ اور لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ بدلتے ہوئے حالات و حقائق نے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے لئے کشمیر کیس کی وکالت کو کس قدر دشوار بنادیا ہے۔ انڈیا کا روز افزوں سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ پاکستان کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کے مقالےمیں عالمی برادری 125کروڑ نفوس کے انڈیا کے ساتھ قربت میں زیادہ پرجوش ہے۔ توقیر حسین کو پاکستان فارن آفس سے سبکدوش ہوئے مدت ہوچکی، سفارتی ڈھال کے پیچھے چھپنا ان کی مجبوری نہیں تھی، دو ٹوک بات کہہ دی۔ مگر یہ کوئی نئی بات ہے اور نہ کوئی انکشاف۔ ہمارےسفارت کاروں کے لئے سب سے مشکل ٹاسک دو طرفہ اور بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کاز کی وکالت ہے۔ جسے ہمارے روایتی حلیفوں سمیت اس وقت دنیا بھر میں شاید کوئی بھی سنجیدگی سے سننے کے لئے تیار نہیں۔

.
تازہ ترین