• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے سال، مہینے، تاریخیں یاد نہیں رہتیں لیکن واقعات اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ یاد رہتے ہیں۔ کئی سال پرانی بات ہے جب نواز شریف ہائی جیکنگ کیس کا سامنا کر رہے تھے تو میں نے ایک کالم لکھا ’’نواز شریف کے یحییٰ بختیار‘‘۔ مرحوم و مغفور یحییٰ بختیار نے کوئٹہ میں کیس کر دیا اور عدالتی پیشیاں شروع ہو گئیں۔ تقریباً ہر دو ماہ بعد ’’تاریخ‘‘ پر جاتے اور اس طرح کہ لاہور سے کراچی، چند گھنٹے ٹرانزٹ میں پھر کراچی سے کوئٹہ، اگلی صبح عدالت پھر دوپہر کوئٹہ سے اسلام آباد اور اسی شام اسلام آباد سے لاہور۔ بہت ہی بیزار کر دینے والا کاروبار تھا لیکن کیا کرتے ’’پارٹ آف دی گیم‘‘ والی بات تھی۔تیسری یا شاید چوتھی پیشی پر ایک خوبصورت نوجوان ملاقات کے لئے ہوٹل پہنچ گیا اور پھر یاد نہیں کب اور کیسے میرا بہت ہی چہیتا چھوٹا بھائی بن گیا۔ یہ شہید کیپٹن سید احمد مبین تھا جو پیر کو شام ڈھلے خودکش دھماکے میں مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا۔ 3بیٹیاں، ایک بیٹا اور چھوٹی اس کی ایسی لاڈلی کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور میری چھوٹی بہنوں جیسی اس کی وہ بیوہ جو اتنی ہی بے قصور جتنے اس کے بچے۔یہ قاتل در قاتل در قاتل کا وہ سفاک سماج ہے جس میں قاتل تک پہنچتے پہنچتے عمریں اور نسلیں بیت جاتی ہیں۔ ڈی آئی جی کیپٹن (ر) مبین ہڑتالیوں احتجاجیوں کی منتیں کرتا رہا کہ سڑک کھول دیں، دہشت گردی ہو سکتی ہے لیکن دھرنے والوں نے ایک نہ سنی۔ سن لیتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ وہ جو خودکش بمبار تھا، وہی سمجھ لیتا تو اتنے گھر نہ اجڑتے، خودکش بمبار کو برین واش کر کے اس قتل عام کے لئے تیار کرنے والے بھی کچھ سوچتے تو شاید سوچ کر ہی کانپ اٹھتے اور پھر وہ جن کے ہاتھوں میں ان خودکش بمبار سازوں کے ماسٹرز کے ریموٹ تھے۔ قاتل در قاتل در قاتل۔ریموٹ در ریمورٹ در ریمورٹ۔ ’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘‘کیپٹن سید احمد مبین کے ساتھ جواں سال ایس ایس پی زاہد گوندل، ان کے جونیئرز اور دوسرے گمنام شہید درگور اور اس بے امان دھرتی پر ان کے خاندان زندہ درگور۔ چند روزہ سوگ، ٹی وی چینلز پر چیخ و پکار، ماتم کرتے کالم اور پھر خاکم بدہن خاکم بدہن اگلا دھماکہ ..... ایکشنز ری پلے لیکن جانے والے جنہیں پیچھے چھوڑ گئے؟ یہاں تو سروں پر اپنوں کے سائے سلامت بھی ہوں تو سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں تو جن کے سروں سے سائے ہی اٹھ جائیں ان کا حال کون دیکھے اور لکھے گا؟ہزاروں سرکاری محافظوں کے حصار میں محفوظ، مذمت تک محدود، زبانی کلامی حد تک عوام کے دکھوں میں شریک حکمران طبقات اس بات کو پرکاہ جتنی وقعت دینے پر بھی تیار نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر کتنے سوالیہ نشان لگ چکے۔بہت ہی سطحی سوچ ہے کہ یہ خودکش حملہ پی ایس ایل کا فائنل سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے کہ پی ایس ایل تو پیدا ہی اب ہوا۔ اس سے پہلے، اس سے پہلے اور اس سے بھی بہت پہلے کون سے پی ایس ایل تھے؟’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کو اس خبر کے ساتھ ملا کر سمجھیں کہ آسٹریا میں سیکورٹی اداروں نے ہٹلر کے ایک ہم شکل کو گرفتار کر لیا کیونکہ وہ نازی دور کی یادیں تازہ اور زندہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہیرلڈ ہٹلر نامی اس شخص کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ برائو نائو نامی اس علاقے میں ہٹلر جیسی مونچھوں کے ساتھ اس گھر کے باہر اپنی تصویریں بنا رہا تھا جہاں ایڈولف ہٹلر نے جنم لیا تھا۔اسے کہتے ہیں ’’نیشنل‘‘اسے کہتے ہیں ’’ایکشن‘‘اور اسے کہتے ہیں ’’پلان‘‘غور کرو ’’نازی ازم‘‘ کا بیج مارنے اور مکانے میں وہ کس حد تک جاتے ہیں لیکن یہاں سینیٹ میں ہونے والی بحث کی سرخی یہ بنتی ہے کہ ___’’حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا ہی نہیں چاہتی‘‘اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ خود محفوظ ہیں، ’’نیشن‘‘ میں چند ہزار چند لاکھ اوپر نیچے، آگے پیچھے بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ جتنے مرے، اس سانحہ کے دوران اس سے زیادہ پیدا بھی تو ہو گئے ہوں گے۔ ان کے لئے عام شہری آئی ڈی کارڈ نمبر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ورنہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مال روڈ پر تو جلسے جلوس، دھرنے، احتجاج کی پابندی ہے تو کہاں گیا مرد آہن؟ اور کیا ہوئی گڈ گورننس؟ لیکن اس سے بھی بڑا سچ اور المیہ یہ کہ خود ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ کوئی شعبہ یا جتھہ ایسا نہیں جو کسی بھی قسم کے ڈسپلن کو بخوشی قبول کرنے پر آمادہ ہو۔ طلباء سے لے کر ڈاکٹروںتک، اساتذہ سے لے کر فارما مینو فیکچررز اور کیمسٹ برادری تک ہر ایک کے پاس ہر مسئلہ کا ایک ہی حل ہے۔ احتجاج، ہڑتالیں، دھرنے حالانکہ جعلی ادویات بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سب سٹینڈرڈ، غیرمعیاری ادویات بھی قتل عام سے کم نہیں۔ پنجاب حکومت کا ڈرگ ایکٹ اگر سخت بھی ہے تو دوائوں کے معیار پر سختی سے عمل کرنے اور سمجھوتہ نہ کرنے والوں کی صحت پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس کلچر میں مجھے حیرت نہ ہو گی اگر کل کلاں قاتلوں کی کوئی یونین یا ایسوسی ایشن بھی یہ مطالبہ کرتے ہوئے مال روڈ بلاک کر دے کہ قتل کی سزا بہت سخت ہے، اس میں نرمی کی جائے۔پنجاب حکومت اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد بھی ڈٹی نہ رہے تو تف ہے ایسی گورننس پر۔ شہباز شریف نے سو فیصد درست کہا کہ ’’جعلی ادویات گھنائونا کاروبار ہے۔ کسی کو انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ‘‘کیپٹن مبین شہید، زاہد گوندل شہید، ان کے ساتھیوں اور عام لوگوں کی اس قربانی کے بعد کسی بھی قسم کا بنیادی کمپرومائز ان معصوم شہیدوں کے خون سے بیوفائی ہو گی جو بھلائی نہیں جائے گی۔جعلی دوائیں بنانے والے زندہ درگور کر دیئے جائیں تو یہ ہمارے شہیدوں کے لئے کم سے کم خراج تحسین ہو گا۔



.
تازہ ترین