• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے مابین ایک دوسرے کے ملک کے نیوکلیئر انسٹالیشن اور ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کے حوالے سے 1998ء میں طے پائے جانے والے باہمی معاہدے کے تحت ایک ماہ قبل جب پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کی نیوکلیئر انسٹالیشن کی فہرستوں کا تبادلہ کیا تو بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے علاقے چلاگیرے میں قائم خفیہ نیوکلیئر انسٹالیشن تنصیب بھارتی فہرست میں شامل نہیں کی گئی جس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارت میں خفیہ نیوکلیئر سٹی کی موجودگی اور وہاں ہائیڈروجن بم اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی تیاری کا انکشاف کرتے ہوئے بھارتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کیلئے بھی خطرہ قرار دیا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب خفیہ بھارتی نیوکلیئر سٹی کی تعمیر کا انکشاف کیا گیا ہو، اس سے قبل ایک امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ نے خفیہ بھارتی نیوکلیئر سٹی کی تعمیر اور وہاں ہائیڈروجن بم کی تیاری کا انکشاف کیا تھا۔ امریکی جریدے نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت کرناٹک کے علاقے چلاگیرے میں ایک نیوکلیئر سٹی تعمیر کررہا ہے جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا جوہری شہر ہوگا۔ یہ منصوبہ 2017ء کے اختتام تک پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا جہاں قائم ایٹمی ریسرچ لیبارٹریوں میں یورینیم کی افزودگی کرکے جوہری ہتھیاروں میں خاطر خواہ اضافہ اور ہائیڈروجن بم جیسے ایٹمی ہتھیار بنائے جائیں گے۔
پاکستانی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہونے والی اس خبر نے ہر پاکستانی کو حیرت زدہ اور تشویش میں مبتلا کردیا لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ اتنا اہم انکشاف منظر عام پر آنے کے باوجود اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے بھارت کے خلاف کوئی واویلا نہیں کیا بلکہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران نے جب اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں ایران کے خلاف متحد ہوگئیں اور ایران پر پابندیاں عائد کردی گئیں، اسی طرح عراق پر خطرناک ہتھیار بنانے کا الزام لگاکر تہس نہس کردیا گیا، لیبیا نے ایٹمی قوت بننے کی کوشش کی تو اُسے نشانِ عبرت بنادیا گیا جبکہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے پاکستان پر دبائو ڈالتی رہیں اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ’’اسلامی بم‘‘ کا نام دے کر پوری دنیا میں منفی پروپیگنڈہ کیا گیا مگر بھارت کے معاملے میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا دہرا رویہ معنی خیز ہے جس سے یہ تاثر ابھرکر سامنے آرہا ہے کہ بھارت کو امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جو بھارت کو خفیہ طور پر بڑی ایٹمی طاقت بنانے میں معاونت کرکے ایک بہت خوفناک کھیل، کھیل رہی ہیں۔
بھارت کا جنگی جنون پہلی بار سامنے نہیں آیا بلکہ بھارت گزشتہ کئی عشروں سے خوفناک ہتھیار بنانے اور جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ حال ہی میں بھارتی دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کا مقصد بھی ملک میں جدید ترین اور خوفناک ہتھیاروں کا انبار لگانا ہے۔ بھارت شاید ایشیاکی سب سے بڑی جنگی طاقت بننے کے خبط میں مبتلا ہے جو پڑوسی ممالک چین اور پاکستان پر اپنی بالادستی قائم کرکے چین کے مدمقابل آنا چاہتا ہے۔ ایک طرف بھارت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف وہ ایٹمی صلاحیتوں میں اضافہ اور بین البراعظمی میزائل کی دوڑ میں حصہ لے کر خود کو عالمی سطح پر سپر پاور ملک کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کے پاس تقریباً 100 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں مگر وہ نیوکلیئر سٹی میں یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کرکے نہ صرف اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد دگنی کرنا چاہتا ہے بلکہ ہائیڈروجن بم جسے عرف عام میں تھرمو نیوکلیئر ہتھیار کہا جاتا ہے، کی صلاحیت بھی حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پہلے ہی یہ واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان کے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ ان ہتھیاروں سے بھارت کے تمام بڑے شہروں کو 5 بار صفحہ ہستی سے مٹایا جاسکتا ہے۔ میں نے جب بھارت کے ہائیڈروجن بم بنانے کے جنون کے گمبھیر مسئلے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’’16 سال سے اُنہیں ملک کے ایٹمی پروگرام اور دفاعی معاملات سے الگ رکھا جارہا ہے، اس لئے مجھے یہ نہیں معلوم کہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے آج پاکستان کی پالیسی کیا ہے لیکن اگر بھارت ہائیڈروجن بم کی تیاری میں لگا ہوا ہے تو پاکستان کو بھی یہ صلاحیت حاصل کرنا ہوگی اور میں اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون، ایٹمی ہتھیاروں اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی تیاریوں سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کا اندیشہ ہے جس سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے بھارتی جنگی جنون کو کنٹرول نہ کیا تو اس کا خمیازہ مستقبل میں اُنہیں بھی بھگتنا پڑے گا تاہم ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان خاموش تماشائی بننے کے بجائے ایٹمی اور دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرکے اپنی توجہ ہائیڈروجن بم کی تیاری پر مرکوز کرے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ ’’ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹمی طاقت ضرور حاصل کریں گے۔‘‘ بھارت میں خفیہ نیوکلیئر سٹی کے قیام اور ہائیڈروجن بم بنانے کے مذموم بھارتی منصوبے کے انکشاف کے بعد پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو بھی آج یہی نعرہ لگاکر ہائیڈروجن بم کی صلاحیت حاصل کرنا ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ اس مقصد کے حصول کیلئے آج ایک بار پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا محسن پاکستان ابھرکر سامنے آئے گا جو ملک کو ہائیڈروجن بم بنانے کی صلاحیت سے ہمکنار کرے گا۔



.
تازہ ترین