• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے ہفتےیعنی 21فروری کو مادری زبانوں کا دن عالمی سطح پر منایا جائے گا۔ اس دن کے بین الاقوامی سطح پر منائے جانے کا پاکستان سے گہرا تعلق ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پرہر سال منانے کا اعلان اس احساس کے تحت کیا تھا کہ ہر روز کئی زبانیں ہمیشہ کے لئے مٹ جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان زبانوں کے بولنے والوں کی تاریخ اور ثقافت بھی معدوم ہوجاتی ہے۔دنیا میں مختلف مادری زبانیں اس لئے مٹ رہی ہیں کہ ان کے بولنے والے چھوٹے گروہ ہیں،جو ختم ہو رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ یہاں ان زبانوں کے معدوم ہوجانے کا خطرہ ہے جن کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میںہیں۔ اقوام متحدہ نے ایک چارٹر کے ذریعے ممبر ملکوں پر لازم کیا تھا کہ وہ مادری زبانوں کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائیںلیکن پاکستان میں اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اقوام متحدہ نے اس دن کو سالانہ منانے کا اعلان 1999میں کیا تھا۔تب سے لے کر اب تک یہ دن ہر سال ساری دنیا میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اکیس فروری کا دن اس لئے مقررکیا گیا کہ اس دن 1952میں ڈھاکہ یونیورسٹی، جگن ناتھ یو نیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج کے کچھ طلبا کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے قریب شہید کردیا گیا تھا:ان طلباکا مطالبہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیاجائے۔ بعض تاریخ دانوں کی نظر میں پاکستان کا مستقبل اسی دن سے مخدوش ہو گیا تھا۔ اگرچہ بنگالی کو مشرقی پاکستان کی زبان تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن مسلمان بنگالیوں نے اس دن کو فراموش نہیں کیا اور ان طلبہ کی یاد میں شہید مینار تعمیر کیا۔ پاکستانی ریاست نے اس سانحے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور مغربی پاکستان میں مادری زبانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔
پاکستان میں مادری زبانوں کو انگریز ی نو آبادیاتی نظام کے زمانے سے ہی نظر انداز کیا گیا۔ انگریز حکمرانوں نے جب 1849میں پنجاب کی سلطنت پر قبضہ کیا تو اس نے اس علاقے میں اردو کا نفاذ کیا۔ انگریزوں کی اس حکمت عملی کے پس منظر میں اس زمانے کی علاقائی سیاست تھی جس کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔البتہ سندھ میں انگریز نے سندھی زبان کے رسم الخط کو معیاری بنا کر لاگو کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے پاکستان میں صرف سندھی زبان ہے جسے صوبائی سطح پر سرکاری زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔
جب انگریز نوکر شاہی پنجاب اور سرحد میں اردو کا نفاذ کر رہی تھی تو اس وقت اس کے مختلف افسروں کے درمیان کافی بحث مباحثہ ہو رہا تھا۔ یہ مباحثہ انگریز افسروں کی خط و کتابت ’پنجاب میں اردو کا نفاذ‘ نامی کتاب میں شائع ہوچکا ہے جسے چوہدری محمد رفیق نے مرتب کیا۔ انگریز افسروں کی اس خط و کتابت میں شاہ پور (حالیہ سرگودھا) کے ڈپٹی کمشنر، میجر ولسن نے بہت دور رس باتیں کیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر زبان کا مقصد خواندگی کو بڑھانا ہے تو وہ مقصد صرف مادری زبان کے نفاذ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اپنی دلیل کو واضح کرنے کے لئے اس نے برطانیہ کی مثال دی اور کہا کہ جب تک برطانیہ میں لاطینی زبان نافذ رہی خواندگی کی شرح بہت ہی معمولی تھی، پھر جب فرانسیسی کو لایا گیا تو یہ شرح قدرے بہتر ہوئی لیکن عوامی خواندگی کا مسئلہ اسی وقت حل ہوا جب انگریزی کو اپنایا گیا۔ میجر ولسن کی پیشگوئی ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد بھی درست ثابت ہوئی ہے کیونکہ پاکستان میں اب بھی خواندگی کی شرح بہت نیچے ہے۔
پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں خواندہ لوگ بھی نیم پڑھے لکھے ہیں۔ عمومی طور پر پڑھنے لکھنے کا بنیادی مقصد حصول علم نہیں بلکہ رٹا لگا کر امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کا زیادہ تر وقت انگریزی اور اردو سیکھنے میں صرف ہوتا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں جانکاری بہت محدود رہ جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ریاست نے اپنی نظریاتی ضرورتوں کے لئے اردو نافذ توکئے رکھی لیکن کلیدی کاروبار انگریزی میں ہی ہوتا رہا ہے۔ اس وجہ سے اردو زبان کی نشووارتقا کا عمل بھی جاری نہیں ہوا۔ اردو زبان کے ساتھ کئی حل طلب مسائل ہیں لیکن پھر بھی یہ رابطے کی زبان کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اب جگہ جگہ انگریزی میڈیم اسکول کھلنے سے اردو میں تعلیم اور بھی کمزور ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے اس کے مختلف علوم کے اظہار کرنے کی سکت اور بھی کم ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان جیسے ملکوں میں زبان کی سیاست کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مادری زبانوں میں تعلیم کی عدم موجودگی سے قومی شناخت کا بھی مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ چونکہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ ہونے کی بجائے پوری قومی تاریخ اور ثقافت کا اظہار ہوتی ہے اس لئے اس سے لا علمی اپنے پورے تہذیب و تمدن کی نفی ہوتی ہے۔ جب پنجابی یا پختون اپنے بزرگوں کے دئیے ہوئے علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں تو وہ اس خلا کو اجنبی افکار سے پر کرتے ہیں یا پھر خالی الذہن ہوتے ہوئے نچلے درجے کے تعصبات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ فرقہ پرستی اور ذات برادری کے توہمات میں جکڑے رہتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے رجحان میں اضافے کی وجہ نئی نسلوں کا اپنے قومی ورثوں سے بیگانہ ہونا بھی ہے۔ اس علاقے میں مقامی مفکرین (جن کو عام طور صوفی کہا جاتا ہے) کے انسانیت کے پرچار کے بنیادی فلسفے کو نظرانداز کیا گیا جس سے مذہبی بنیاد پرستی نے جنم لیا۔ جب پنجابی یا پختون بلھے شاہ یا خوشحال خان خٹک کے انسان پرست افکار سے نابلد ہوتا ہے تو وہ اپنے ذہن کو قدامت پرست روایتی خیالات سے بھرتا ہے جس سے اس کی ذہنی ایج منفی سمت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ اتفاقیہ امر نہیں ہے کہ اب جب ریاست مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کرنا چاہتی ہے تو وزیر اعظم نواز شریف میاں محمد بخش کے اس طرح کے اشعار پڑھتے ہوئے سنائی دیتے ہیں:
مسجد ڈھا دے مندر ڈھاہ دے، ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا
اک بندیاں دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا
(مسجد گرادے، مندر گرادے اور چاہے جو مرضی گرادے لیکن کسی انسان کا دل نہیں توڑنا، کیونکہ دل میں خدا بستا ہے)۔
معاشی پہلو سے بھی مادری زبانوں کا مثبت کردار مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ایشیا کے جن ممالک نے تیز تر ترقی کی ہے انہوں نے اپنا بنیادی ذریعہ تعلیم مادری زبانوں کو ہی بنایا ہے۔چین، جاپان، جنوبی کوریا اور اس علاقے کے بہت سے ممالک نے برق رفتار معاشی ترقی کی ہے اور اس کے لئے انہوں نے اپنی مادری زبانوں کو ترقی دی ہے۔ ان ممالک میں بہت کم لوگ انگریزی سے آشنا ہیں لیکن اس سے ان ممالک کی معاشی اور سماجی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ اس لئے اگر پاکستان جیسے ممالک کو ترقی کرنا ہے تو انہیں مادری زبانوں کی ترویج کرنا ہوگی۔



.
تازہ ترین