• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک چین میں ملاوٹ اور جعلی و غیرمعیاری ادویات کی سزا موت ہے۔ محترم شہبازشریف کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف، جناب وزیراعلیٰ پنجاب آپ سے توقعات بڑھ چکیں، جعلی اور غیر معیاری ادویات فروخت کرنے والوں کو کڑی سزادینا ہوگی۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ مزید قانون سازی اور ترامیم لانی ہوں گی تاکہ ایسوں کو کڑی سے کڑی سزا ملے۔ ایسی ادویات بنانے والوں کے ساتھ بھی یکساں سلوک روا رکھنا ہے۔ براہ مہربانی فیکٹریوں، اسٹوروں کو قومی ملکیت میں لانے کے لئے قانون سازی کریں۔ جعلی ادویات مافیا کا کہنا کہ ’’ہماری جدوجہد میں اب شہادتیں بھی شامل ہو چکیں‘‘، بے شرمی کا نقطہ عروج ہی سمجھیں۔ جی ہاں، لاہور سانحہ کے اصل مجرم جعلی اور غیرمعیاری ادویات بیچنے، بنانے والے ہی ہیں۔ دو نمایاں، یکتا، بے مثل پولیس افسران سے ہم محروم ہو گئے۔ حادثے میں درجن سے زیادہ شہادت کا رتبہ پاگئے، جبکہ کئی درجن زخموں سے چور، مختلف ہسپتالوں میں زندگی اور شہادت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ اہم نہیں کہ ڈمی جماعت یا تنظیم یا کرائے کا کوئی نام ایسی مجرمانہ واردات میں استعمال ہوا۔ نام میں کیا رکھا ہے؟ مذہب، فرقہ، قومیت کی بنیاد پر ایسی حرکت کرنے والے پاکستان کے دشمن نمبر ون ہیں۔ کافروں کے آلہ کار بننے والے کافروں سے بدتر درجہ رکھتے ہیں۔ القاعدہ، داعش، طالبان پاکستان سب نے امریکی سی آئی اے کی کوکھ سے جنم لیا۔ امریکہ خطہ کی تھانیداری مع افغانستان کا انتظام و انصرام، بھارت کے حوالے کر چکا۔ بھارت سے شکوہ بنتا نہیں کہ دشمن نے موقع ضائع کرنا نہیں۔ بدقسمتی وطن عزیز کی کہ وطنی نامور سیاستدان، بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانے میں مستعد و متفق ہو چکے۔ کچھ کی روانی دیدنی، بھارتی گود میں آسودگی پا چکے۔ قومی رہنما بھارتی عزائم کے آگے سینہ سپر رہنے کی بجائے مروت کی گردن جھکا چکے۔ وزیراعظم پاکستان نے انتہا ہی تو چھوئی تھی۔ ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں پوچھ گچھ فرمائی، ’’شکیل آفریدی ایک غدار ہی تو ہے۔ امریکہ کے حوالے کرنے میں آخر کو حرج ہی کیا ہے؟‘‘ کل کو بھارتی جاسوس کلبھوشن کی حوالگی کا معاملہ زور پکڑے گا تو بھی شاید ایسی بدمعاملگی دیکھنے کو ملے گی۔ محترم وزیراعظم! خبردار، دبی چنگاری سے نہیں کھیلنا، شعلہ افشاں دبا ہے، اقتدار بھسم کرجائے گا۔ کئی دفعہ لکھ چکا ہوں، نابغہ روزگار وزیراعلیٰ پنجاب کے بھی گوش گزار کیا۔ جناب نواز شریف کا تیسری دفعہ کا اقتدار، ایک امتحان جانیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ یا تو کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے یا بصورت ناکامی، کڑی گرفت میں۔ حالات اور واقعات کی نشاندہی بھی یہی کچھ۔ پانامہ لیکس، انہونیاں، ناگہانیاں ’’اللہ کی پکڑ‘‘ کے آثار نمایاں، توبہ استغفار کرلیں، اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا ہوگا۔ آئے دن، نئی سے نئی دلدل میں پھنسنا، ذاتی اور خاندانی ہزیمت، پریشانی، پشیمانی اللہ تعالیٰ کی وارننگ ہی جانیں۔ جناب والا، کان نہ دھرے تو دھر لئے جائیں گے۔ نظریہ سے بے رخی، بھارتی دوستی، لبرلزم، امریکی آشیرباد، جناب کے اقتدار کے دوام کے لئے ناقص اجزا ہی تو ہیں۔ مشیت ِایزدی نے دھر لیا تو نئی محبتیں، نئے نظریئے، نئی دوستیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ غلط فہمی نہیں، سانحہ لاہور، بھارت کی ہی پیشکش ہے، نئی پیکنگ کے ساتھ ۔ بات یہ بھی حتمی، جرائم پیشہ جعلی اور غیرمعیاری ادویات مافیا وجہ بنا۔ دھماکہ کی ذمہ داری میں حصہ دار ہے۔ جب سے PSL فائنل لاہور میں منعقد کروانے کا فیصلہ ہوا، دل دھک دھک باہر، کہ لاہور ضرور ٹارگٹ بنے گا۔ کیسا ملک کہ مافیا، عام آدمی کی زندگی سے کھیلنے والے جلوس نکالیں، سراپا احتجاج رہیں۔ جعلی اور غیرمعیاری ادویات فروش، سڑکوں پر، ’’جان لینے کا ہمارا حق، کیوں چھینا جارہا ہے؟‘‘ ادب آداب برطرف، اخلاقی، سماجی، سیاسی کہتری کا شکار قومی میڈیا، دھماکے کے بعد بے ہنگم دھماچوکڑی میں مصروف ہوگیا، ’’ جب لاہور میں دھماکے کی اطلاع موجود تھی، روکنے کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘ میڈیا کا شوروغوغا، واویلا سمجھ سے بالاتر۔ یوں لگ رہا ہے جیسے بندروں کے تصرف میں آچکا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چند دن پہلے ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگائی تو اگلے دن ایک انگریزی جریدے نے اس پر ووٹنگ شروع کرادی۔ حیف پاکستان کا ایک طبقہ تاخیر (Late) کاٹ رہا ہے۔ ایسے لوگ اپنے والدین کی ویلنٹائن سے محرومی کا بدلہ قوم سے چکا رہے ہیں۔ ایسا احساس محرومی؟ اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، شیطان اور اس کے چیلوں سے۔
رانا ثنا اللہ کی میڈیا ہینڈلنگ، خصوصاً بحرانی موقعوں پر، ہمیشہ قابل ستائش۔ خطرہ موجود، دھماکے پر سوالات کی بوچھاڑ، دھرنے کی اجازت کیوں دی؟ اچھا ہینڈل کیا۔ ترت جواب وضاحتیں تسلی بخش تھیں۔ ذرا تصویر کا دوسرا رُخ زیرِبحث لائیں۔ چشم ِ تصور میں اگر بطور انتظامی تدبیر، پولیس بذریعہ طاقت، دھرنے کو دھر لیتی۔ بفرض محال لاٹھی چارج آنسو گیس رہتی، امکان کہ گولی بھی چل جاتی ۔ ماضی میں کئی دفعہ گولی چلانے میں پوشیدہ کردار موثر رہے۔ مرتضی بھٹو، محترمہ بے نظیر، سانحہ ماڈل ٹائون میں پوشیدہ ہاتھ آج بھی گم شدہ ہیں۔ ہر امکان موجود تھا۔ کہنا یہ کہ ایسی صورت میں امابعد میڈیا نے کیا رٹ لگانا تھی۔ ’’حکومت ظالم، جابر، جمہوریت کش، بنیادی حقوق پر ڈاکہ‘‘، نجانے کیا کیا اول فول بکا جاتا۔ ایک دوسرے سے سبقت لینے میں انتظامیہ کی مذمت، مرمت کرتے نظر آتے ۔ بقول رانا ثنا اللہ، ’’ان حالات میں معاملہ بریکنگ نیوز ’’پلس‘‘ سے بھی آگے نکل جاتا‘‘۔ دورائے نہیں، لاہور، مقابلتاً باقی پاکستان، تمام بڑے شہروں میں انتظام اور امن وامان میں نمبر ون ہے۔ کاش ماضی کی اداکارہ شبنم کراچی کے ساتھ لاہور آتیں، لاہورکو دیکھ کر ہکابکا رہ جاتیں۔ یہی وجہ کہ غیرملکی جب بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں، لاہور کے گرویدہ بن جاتے ہیں۔ لاہور کے گن گاتے رخصت ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات لاہور کو غیرمحفوظ ہرگز نہیں بنا سکتے۔ 24 گھنٹے، ہر مقام، کونہ کھدرہ آج بھی محفوظ، کہیں بھی آنے جانے میں جھجک نہیں۔
محترم شہبازشریف، جناب رانا ثنااللہ، خواجہ نذیر صاحب آپ اصحاب کا امتحان ہے۔ مافیا سے پنگا، شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنے سے کم نہیں۔ بدنصیب وطن میں کالادھن، جعلی ادویات، ملاوٹ، ڈاکہ، بھتہ منظم ہوکر سامنے آچکا ہے۔ حیرانی پریشانی، جعلی غیرمعیاری ادویات مافیا اپنے حقوق کیلئے دن دہاڑے دھرنے ہڑتالیں فرما رہا ہے ۔ مافیا کی بلیک میلنگ میں نہیں آنا۔ پنجاب اسمبلی کو مزید کڑی اور سخت قانون سازی کرنا ہوگی۔ سزائیں عبرتناک رکھنی ہوں گی۔گزارش اتنی کہ تمام بند اسٹوروں کو قومیا کر آڈٹ کروانے کا قانون بنائیں۔
ڈرگ انسپکٹرز کے ذریعے سیلز کا آغاز کردیں۔ لوگوں کو اجازت دیں بلکہ حوصلہ افزائی کریں کہ سٹور کو اپنے طور کھول کر ضرورت کی دوا لے سکیں۔ انسانی زندگی بچانے کے لئے، دین ہر طرح کے تجاوز کی اجازت دیتا ہے۔ معیاری دوائوں کی آمدن مالکان کو ادا کریں جبکہ غیرمعیاری ادویات کے جرم میں گرفتاری یقینی بنائیں اور عبرت ناک سزائیں دیں۔ دھماکے کے اصل محرک اور دشمن سے بھی صرف نظر نہیں کرنا۔ چند دن پہلے ماضی کا جری جوان، پاک فوج کے لئے اندرون و بیرونِ ملک عظیم الشان خدمات سرانجام دینے والا کردار دوٹوک انداز میں کہہ گیا، ’’میرے زمانے میں پاکستان کے انتہائی نامساعد حالات میں، ہم نے بھارت کو نکیل ڈالے رکھی، امریکہ کے سامنے رکاوٹیں رکھیں۔ اب تو حالات، ارضی سیاست، پاکستان کے حق میں ہے۔ اگر بھارت کے ساتھ ’’ادلے کا بدلہ‘‘ نہیں رہتا تو کمینہ دشمن کبھی باز نہیں آئے گا۔ اگر پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیلی جا سکتی اور غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے تو یقینی بنانا ہوگا، کہ بھارت کو ایسے ہی مصائب اور مصیبتوں کا سامنا رہے‘‘۔ بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجتی رہی، میانمار، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، اندرون آسام، مصیبت بنے رہے، تو پاکستان محفوظ رہے گا۔ میاں صاحب بھارت دوستی میں وطن بربادی اور کشمیر غلامی ملفوف ہے۔ کنارہ کشی کی پالیسی جاری رکھنا ہوگا۔ مصیبت کی گھڑی، کبھی کبھی عمدہ موقع بھی، گنوانا نہیں۔



.
تازہ ترین