• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نجی ٹی وی کے ایک مقتدر تجزیہ نگار بتا رہے تھے (غالباً 2016ء) سے اب تک 18دھماکے ہو چکے، 532ہلاکتیں ہوئیں!‘‘
ڈیرہ غازی خان جیل توڑنے کا وقوعہ بھی انہوں نے سنایا، تشویش انہیں اس پہ بہت تھی، اس تشویش کا مفہوم یہ تھا ’’اس جیل پر کامیاب حملے نے آج تک میرے اوسان خطا کر رکھے ہیں، کسی ایسے امکانی وقوعے کو روکنے کے لئے متعلقہ فورسز نے باقاعدہ ریہرسل کی تھی پھر بھی جو ہونا تھا، جیسا ہونا تھا، ہو کے رہا؟ پروگرام کا زیر بحث موضوع 13؍ فروری کی شام، برپا ہونے والی قیامت صغریٰ تھی!
لاہور کی اس قیامت صغریٰ میں ’’پولیس افسروں کے مظاہرین سے مذاکرات کے دوران پیدل حملہ آور نے خود کو اڑا لیا، کئی گاڑیوں کو آگ لگ گئی، کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے ذمہ داری قبول کر لی، وکلاء نے ہڑتال کا اعلان کر دیا، آج قومی پرچم سرنگوں رہے گا‘‘ ’’ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے‘‘، صدر نے قانونی تقاضے کی یاددہانی کرائی، وزیراعظم نے البتہ ایک دورسی جہت سے بات کی، ان کا کہنا تھا ’’بدلہ لینے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی!‘‘
اور اس قیامت صغریٰ کے مجموعی مناظر اور واقعات میں اس تسلسل کو شامل کیا جا سکتا ہے، عرصہ 20,15برس سے زائد ہونے کو ہے، جو پاکستان کی شاید تقدیر، شاید ہماری اجتماعی مکافات عمل کی صورت اختیار کر گیا ہے، اہل علم و نظر اس معاملے پر گفتگو کا استحقاق رکھتے ہیں، کوئی عاصی نہیں، یہ علیحدہ بات ہے حضرت والا تبار اشفاق احمد خان (رحمۃ اللہعلیہ) کے خیال میں ’’اس ملک کو پڑھے لکھوں نے برباد کر دیا‘‘۔
چنانچہ اس قیامت صغریٰ کے مجموعی مناظر اور واقعات کی تصویر کشی اور تفصیلات، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی لمحہ بہ لمحہ اطلاعات کے باوجود، دہرانے میں کوئی حرج نہیں، سنا ہے آہ و فغاں اور بین کی تکرار احساسات کے مضروب کی جھنجھناہٹوں میں کسی ہدایت یافتہ اضطراب کو بھی جنم دے سکتی ہے!
سو ان مجموعی مناظر اور واقعات میں بہت کچھ ہے، مثلاً دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی، ہر طرف اعضاء بکھر گئے، اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، شہادتوں میں اضافے کا خدشہ، متعدد عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے، نجی ٹی وی کی وین سمیت کئی موٹر سائیکلوں کو نقصان، 6سے 8کلو میٹر دھماکہ خیز مواد کا استعمال، حملہ آور کو سی سی ٹی وی کی مدد سے شناخت کر لیا، شہدا میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور کیپٹن (ر) احمد مبین، ایس ایس پی زاہد محمود گوندل، ایلیٹ کے دو اور ڈولفن فورس کا ایک جوان، ایک وارڈن، ایس ایس پی کا آپریٹر، مجموعی طور پر 87کے قریب زخمی، 13پاکستانی شہید ہوئے، یہ ہیں مناظر اور واقعات! بس اتنا بتا دیجئے، ان 532ہلاکتوں سے پہلے کی قیامتیں لاہور کی آفت ناگہانی سےکہاں مختلف ہیں؟
جو کہانی اپنی بنیاد میں 1948ء میں قائداعظمؒ کی مشہور زمانہ تقریر سے شروع ہوئی، پھر پاکستان کے آئین میں ایک قرارداد کے کاندھوں پر سوار ہو کے برگ و بار لائی، ضیاء کے دور میں تناور ترین درخت بنی، یہ اس کے جان لیوا آسیبی سائے ہیں، ایک نہیں اس ملک میں سینکڑوں ملیں گے جنہوں نے دنیا بھر کے کفار ملکوں کو فتح کرنا ہے۔قلمکار اس معاملے میں خاموش رہ کر عافیت کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔
ہم کہاں تک پہنچ چکے؟ اس کا ایک ظاہری سا نمونہ لاہور المیے سے نکال کر پیش کیا جا سکتا ہے، قومی سطح کے ایک معاصر اخبار نے خبر لگائی! ’’ڈپٹی کمشنر نے اسپتال کا دورہ کیا، صحافیوں کے سخت سوالوں کا سامنا نہ کر سکے‘‘۔ رپورٹر نے یہ قصہ یوں لکھا ہے۔ ’’ڈپٹی کمشنر سمیر احمد سید دہشت گردی کے واقعہ پرصحافیوں کے سخت سوالات کا سامنا نہ کر سکے مگر وہ شہدا اور زخمیوں کی تعداد بتانے کے بعد مزید سوالات کے جواب دینے کے بجائے وہاں سے شکریہ شکریہ کہتے چلے گئے‘‘، یہ نمونہ ہاتھی کھا جانے اور کیڑوں پرہیز‘‘ کی حقیقت سامنے لا رہا ہے، میڈیا کے ایسے بیسیوں ’’عظیم مجاہد‘‘ پاکستان کے اس سماجی، ریاستی اور قومی تباہی کے اصل رمز شناس ہیں، لہو کے سمندر میں قیامت صغریٰ کا وجود تیر رہا ہو، وہاں ڈپٹی کمشنر کو سب کچھ چھوڑ کر ان ’’عظیم مجاہدوں، کے حد درجہ جارحیت، کسی رکھ رکھائو سے ماورا لب و لہجے میں کئے گئے سوالات کا جواب دینا چاہئے تھا۔
غیر آئینی حکمرانوں، ریاستی اہلکاروں کی اکثریت اور ہم عوام کی بہت ہی بھاری اکثریت نے جتھہ بنا کر اپنے ملک کا بیڑا غرق کیا، عالمی برادری میں ہم پاکستانی دفعہ 54(شک و شبہ) کے سزا وار ٹھہرائے جا چکے، مگر میڈیا ڈپٹی کمشنر کی گستاخی معاف کرنے کو تیار نہیں، ان لوگوں کی ذہنی سطح پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، چونکہ یہ میڈیا ہے۔
آہ! غرناطہ یاد آ رہا ہے؟ غرناطہ کیا ہے؟ بہت ہی زیادہ تعداد اپنے قلم اور کیمرے لے کر قہقہے لگاتے اپنے اپنے دفتروں میں جا کر باتوں کے پہاڑ کھڑے کرنے میں مصروف ہو جائیں گے۔ سینیٹ کے چیئرمین ’’امریکی ویزا‘‘ کے مسئلہ پر ’’قومی غیرت‘‘ کا علم بلند کر رہے ہیں، غالباً یہاں جو بھی حقائق کی گردن پر ایڑی رکھ کے ’’قبول عام‘‘ کا سلوگن لگائے گا بس وہی محب وطن اور محفوظ ہے؟ اصلیت بیان کرنے میں نوشتہ دیوار کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ کون کرے؟ اور کیوں کرے؟
میڈیا کی اپروچ کے مطابق ’’حملے کی اطلاعات کے باوجود دہشت گردوں نے اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا، دھماکے کے بعد سیکورٹی اداروں کی پلاننگ کا فقدان، انسداد دہشت گردی اور کوئیک رسپانس فورس کے دعوئوں کی قلعی کھلی گئی‘‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی دہشت گردی اور تجزیاتی اور واقعاتی رپورٹ کا کہنا ہے ’’تین برس میں نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (نیکٹا) کا ایک اجلاس منعقد ہوا‘‘، دونوں نکات سامنے رکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے بیان پر غور کریں۔
آرمی چیف نے کہا ’’فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سول اداروں کی معاونت کریں‘‘ اب آپ پاکستان کے دہشت گردی کے تناظر میں، ان تینوں بیانات کی قدر و قیمت کا اندازہ لگائیں، میڈیا کا مشاہدہ ہے، دہشت گرد تمام تر اطلاعات کے باوجود اپنا ٹارگٹ حاصل کر گئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بقول ’’تین برس میں انسداد دہشت گردی کے ادارے کا صرف ایک اجلاس ہوا ‘‘آرمی چیف چاہتے ہیں’’فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سول اداروں سے معاونت کریں‘‘ پھر خلا کہاں ہے؟۔
مملکت خدا داد پاکستان ناقابل بیان گہرائی پر مشتمل دہشت گردی کی قیدی ہے، یہ اچانک نہیں ہوا، اس کی جڑیں قیام پاکستان کے فوراً بعد ملتی ہیں، یہ درخت وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے، ریاست اور سماج جب تک مکمل سچ نہیں بولیں گے، اس پہ ’’مکمل عمل‘‘ نہیں ہو گا، ہماری قومی تباہی کا تسلسل.... آگے کہنے کی ضرورت نہیں!





.
تازہ ترین