• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض صاحب کی شاعری کے بارے میں جیسا میں سوچتا ہوں اور ان کی یادوں کی لہر کو لفظوں میں منتقل کر رہا ہوں جو اکثر میرے ذہن کے دروازے پر دستک دیتی رہتی ہیں، میرے گھر ایمسٹرڈیم میں ان سے ہوا مکالمہ میری یادوں کی سلیٹ پر جم کر رہ گیا ہے۔ ان کے چہرے پر ذہانت، ملائمت، محبت، شفقت اور اس کے ساتھ ساتھ ایک دائمی مسکراہٹ ہر دم سجی رہتی تھی، تاریخ کے سفر میں انسانیت کی سرفرازی کے لئے اٹھنے والی آوازیں انسانیت کو اذیتوں اور تکلیفوں کی دلدل سے نکالنے کے نصب العین پر چلنے والی تحریکیں اور شاعری کبھی نہیں مرتیں اور پھر فیض کی شاعری اور فیض جیسا شاعر تو کبھی نہیں مرتا، اس کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے اور رہے گی۔ بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ فیض احمد فیض کے سامنے کسی دوسرے کا چراغ نہیں جلتا تھا مگر میرے حساب سے فیض صاحب کی موجودگی میں چھوٹے موٹے چراغ جلے تو مگر روشن نہ ہو پائے، فیض نے اردو شاعری کو ایک نیا نسب ہی نہیں دیا بلکہ نئی جہت کی بشارت بھی دی ہے۔ فیض نے اپنے سرمایہ شعری سے یہ ثابت کیا ہے کہ اشعار کی تخلیق صرف جمالیاتی فعل ہی نہیں ہے بلکہ افادی فعل بھی ہے۔ ان کی شاعری میں جمالیاتی لوازم کے ساتھ ساتھ معنویت اور نفس مضمون کے عناصر ساتھ ساتھ چلتے ہیں، فیض کی شاعری انسانیت کا پیغام دیتی ہے اور میرے حساب سے یہ تزکیہ نفس کے لئے کافی ہے۔ فیض بہت پڑھا لکھا شاعر تھا۔ 1928ء میں میرے کالج سیالکوٹ کی ادبی تنظیم ’’اخوان الصنعا‘‘ کے پہلے طرحی مشاعرے کے لئے فیض نے جو غزل کہی اس کا پہلا شعر تھا۔
لب بند ہیں ساقی میری آنکھوں کو پلا دے
وہ جام جو منت کش جیسا نہیں ہوتا
یہ شاعر کا پہلا شعر تھا جو بے حد مقبول ہوا اور اسی مشاعرے سے فیض کی ادبی شہرت کا آغاز ہوا۔ میرے نزدیک شاعری تمام تر ’’فن‘‘ نہیں ہے کہ اس پر قابو حاصل کر کےکوئی بھی شاعربن جائے۔ اس کا ایک گہرا رشتہ اور تعلق شاعر کی شخصیت اور اس کے فکری کمٹمنٹ سے بھی ہے۔فیض صاحب نے کسی جگہ لکھا ہے۔ ’’شاعر ہو یا عام آدمی اس کے لئے زندگی اور موت، جنگ وامن آسودگی و بھوک، انصاف و ظلم، مساوات اور طبقاتی استحصال، ترقی پسندی اور رجعت پسندی میں انتخاب کرنا ضروری ہے۔
فیض صاحب عہد جدید کے کلاسیک صاحب طرز شاعر ہیں۔ ان کے کلام کی اثر پذیری اور تاثر انگیزی ایک عجیب نمونہ ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو متاثر تو بے حد کرتے ہیں مگر ان کے تاثر کی تقلید آسان نہیں بلکہ مشکل تر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا طرز فغاں اور طرز بیاں لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں جاگزیں ہوگیا مگر ان کے بعد آنے والوں میں کوئی کوشش بسیار کے باوجود تقلید نہ کرسکا ۔ اس امر پر غور کریں تو یہی وہ نکتہ ہے جو سمجھ میں آتا ہے کہ ادب میں استفادہ تو عام طور پر ممکن ہے مگر اس شعبے میں جانشین ایک سراب ہے وہ چاہے احمد فراز ہی کیوں نہ ہو۔ فیض کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جل پایا ۔ ن، م راشد ہو یا احمد ندیم قاسمی، حجاز ہو، علی سردار جعفری ہو یا کیفی مگر فیض اپنے عہد کی آواز ہے، دوسرے لفظوں میں ہم سب فیض کے عہد میں جی رہے ہیں، میں مانتا ہوں فیض کی ہمہ گیر مقبولیت، شہرت، عزت اور چاہت کے باعث ان کے معاصر شعراء پر کم کم توجہ دی گئی ہے، جہاں تک احمد ندیم قاسمی کا تعلق ہے وہ اتنے بڑے شاعر تو نہیںتھے مگر اتنے غیر اہم شاعر بھی نہیںتھے کہ ان کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ معاصر سے یاد آیا کہ ایک جریدے ’’ معاصر‘‘ میں فیض صاحب کے حوالےسے احمد ندیم قاسمی کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا ۔ عجیب اتفاق ہے کہ فیض احمد فیض اوراحمد ندیم قاسمی کا تعلق ماہ نومبر سے ہے، فیض کی وفات 20 نومبر کو ہوئی تو احمد ندیم قاسمی کی پیدائش کا تعلق بھی 20 نومبر ہی سے ہے۔ فیض کے باب میں کچھ کہنا تو سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ البتہ قاسمی صاحب زندگی بھرگوناگوں نظریات اور بہت زیادہ نظر انداز کئے جانے پر سیخ پا ہوتے رہتے تھے، لیکن کسی حد تک وہ خود بھی بڑی حد تک ذمہ دار تھےمجھے بہرحال یہ نہیں دیکھنا کہ احمد ندیم قاسمی کے بارے میں کس نے کیا کہا اور کون کیا کہہ رہا ہے۔ میرے حساب سے اکثر لوگوںکا المیہ یہ تھا کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر خود کو فیض کے ہم پلہ سمجھتے تھے۔
آل احمدسرور نے لکھا ہے ’’فیض صاحب طرز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باشعور شاعر بھی ہے اور ایسا کم از کم برصغیر کی حد تک تو کوئی دوسرا شاعر نہیں ہے۔‘‘
اثر لکھنوی کا کہنا ہے فیض احمد فیض کی شاعری ترقی کے مدارج طے کر کے اس نقطہ عروج پر ہے جہاں تک شاید ہی کسی دوسرے ترقی پسند اور کمیٹڈ شاعر کی رسائی ہو۔
فیض کی شاعری ابتدا تا انتہا اعجاز ہے جو آج لگ بھگ تین دہائیوں کے بعد بھی برقرار ہے اور آئندہ بھی اس کے تمام ہونے کے ہلکے سے بھی آثار نظر نہیں آتے بلکہ ماضی میں اس کی شاعری کی تفسیر و تشریح بھی ہوتی رہی ہے، آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔
کوئی سماعت، کوئی لمحہ، کوئی پل اپنا نہیں
وقت شاید پھنس گیا ہے دشمنوں کے درمیاں



.
تازہ ترین