• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن جاری رکھنے کا عہد منگل کے روز ایک بار پھر اعلیٰ سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے دہرایا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے اس عہد کا اعادہ پیر کے روز لاہور میں رونما ہونے والے بم دھماکے کے تناظر میں منعقدہ علیحدہ علیحدہ اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ سانحہ مال روڈ میں کم از کم 13افراد شہید ہوئے جن میں دو اعلیٰ پولیس افسر بھی شامل تھے۔ جبکہ ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ وزیراعظم نے امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں فوری طور پر مزید سختی لانے اور اس جنگ کو منطقی انجام کی طرف لے جانے کے دو ٹوک عزم کا اظہار کیا۔ آرمی چیف نے بھی اپنے لاہور کے دورے میں کورہیڈ کوارٹرز میں سیکورٹی اجلاس کے دوران واضح لفظوں میں کہا کہ ہر رنگ و نسل کے دہشت گردوں، ان کے مالی مددگاروں، منصوبہ سازوں اور باہر سے مدد دینے والوں کو ملک بھر میں تلاش کرکے نشانہ بنایا جائے گا، قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان بیانات اور ذرائع ابلاغ کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں بھی انٹیلی جنس اداروں کی نشاندہی پر سرچ اینڈ کومبنگ آپریشن یا ٹارگٹڈ کارروائی جیسے اقدامات بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ اس باب میں ملک بھر میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کو اس کی ہر شکل میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہی ملکی سلامتی اور عام لوگوں کے تحفظ کی ناگزیر ضرورت ہے۔ پچھلے برسوں کے دوران مالا کنڈ، سوات، خیبر ایجنسی، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا کے ’’نوگوایریا‘‘ بننے والے علاقوں میں کئی بڑے آپریشن ہوچکے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں ٹارگیٹڈ کارروائیاں ہوئی ہیں۔ پنجاب میں بھی کئی کارروائیاں کی گئیں۔ پاک فوج اور اس کے ذیلی اداروں نے جہاں جہاں آپریشن کیا وہاں دہشت گردوں کو بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مگر کچھ ایسے امور بھی ہیں جن پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دوست کہلانے والے بعض بیرونی ملکوں سے آنے والے تبصروں اور اندرون ملک سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کی آرا کی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہماری بلاتفریق کاوشوں کے درمیان کہیں کوئی ایسا حقیقی رخنہ تو باقی نہیں رہ گیا جس سے دہشت گردوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے یا مل سکتا ہے۔ یہ نکتہ سب ہی کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ نائن الیون کے بعد جب اتحادی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو انہوں نے القاعدہ جنگجوئوں اور ان کے حامیوں کی بڑی تعداد کو پاکستان میں داخل ہونے کا موقع دیا جن کو طویل مسام دار بارڈر پر روکنا پاکستان کی کم وسائل کی حامل محدود نفری کے لئے ممکن نہیں تھا۔ بعد میں پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اب پاکستانی فوج بڑی حد تک دہشت گردوں کی بیخ کنی کرچکی ہے تو ایک طرف بھارت مختلف راستوں سے اپنے ایجنٹ پاکستان بھیج رہا ہے دوسری جانب افغانستان کی طرف سے بار بار لشکروں اور خودکش بمباروں سمیت دہشت گردوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ پیر کے روز لاہور میں رونما ہونے والے واقعہ کے جن ذمہ داروں کا سراغ لگایا گیا اور گرفتاریاں ہوئیں ان میں افغان باشندے بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ایک جانب افغانستان سمیت پڑوسی ملکوں کے ساتھ ایسا نظام بنانا ضروری ہے جس سے دراندازی روکنے میں مدد ملے دوسری طرف نئی دہلی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے ساتھ اس کے دیرینہ مذموم ہتھکنڈوں سے چوکنا رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ محکمہ پولیس کی اہمیت اور قربانیوں کا مؤثر اعتراف کیا جانا چاہئے جس کا درست طریقہ یہ ہے کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کو سیاسی دبائو کی کیفیت سے آزاد کرکے دیانت داری سے کام کرنے کی فضا فراہم کی جائے۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو ختم کرکے ہی ہم ملک دشمن قوتوں کے مذموم عزائم کی راہ میں حقیقی بند باندھ سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین