• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند روز سے دہشتگردی کی ایک نئی لہر نے کئی اور قیمتی جانیں لے لیں۔ دو روز قبل لاہور میں شہید ہونے والوں میں دو سینئرافسروں سمیت پولیس کے پانچ اہلکار بھی شامل تھے، کوئٹہ میں بم ڈسپوزل ٹیم کے ایک اہم رکن سمیت دو افراد شہید ہوئے، کراچی میں میڈیا کو نشانہ بنایا گیا اور پھر آج پہلے قبائلی علاقہ میں دہشتگردی کے واقعہ میں کم از کم تین خاسہ داروں سمیت پانچ افرادکی شہادت کی خبر ملی اور پھر حیات آباد پشاور میں دہشتگردوں نے کارروائی کی جس کے نتیجے میںکچھ اور شہادتیں ہو گئیں۔ بلاشبہ گزشتہ دو تین سال سے وفاقی و صوبائی حکومتوں، فوج، پولیس، ایف سی اور دوسری سیکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کی کوششوں سے حالات پہلے سے بہت بہتر ہوئے۔ دو تین سال قبل تک بم دھماکے، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ تو روز کا معمول تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں جانوں کا ضیاع ہوا۔ گزشتہ دو سال میں دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی ہوئی اورکراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں سمیت حالات کافی بہتر ہوئے ۔ حالات میں خاطر خواہ بہتری کے باوجود دہشتگردی کے اکا دکا واقعات ہمیں یا دلاتے ہیں کہ مرض ابھی ختم نہیں ہوا لیکن اب معاملات پھر بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔جب بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں میڈیا، سیاستدان ، پارلیمنٹ وغیرہ سے شور اٹھتا ہے اعتراضات کیے جاتے ہیںجبکہ حکومت کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف لڑنے کاعزم دہرایا جاتا ہے۔ لیکن چند دن کے بعد معاملات پھر معمول کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور جوخامیاںاور کوتاہیاں دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اُس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی یہاں تک کہ پھر ایک نیا دہشتگردی کا واقعہ رونما ہو جاتا ہے اور پھر کئی جانوں کی شہادت کا دکھ قوم کو برداشت کرنا پڑتا ہے جس کے بعد پھر وہی بیانات، وہی اعتراضات اور وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ ورنہ جو خامیاں کل موجود تھیں اور اُن پر بار بار بحث ہو چکی وہ آج بھی موجود ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بیماری جو رہ گئی اُس کا علاج نہیں کیا جارہا۔ مثلاً دسمبر 2014 میں نیشنل ایکشن پلان بناتے وقت اس بات کا سب کواحساس تھا کہ انٹیلیجنس اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان تعاون بڑھائے بغیر دہشتگردی اور دہشتگرد گروپوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے نیکٹا کو مکمل طور پر فعال بنانے کا وعدہ کیا گیا لیکن دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود نیکٹا آج بھی مکمل فعال نہیںاور مختلف انٹلیجنس اداروں کے درمیان معلومات کی فراہمی میں تعاون کے لیے جائنٹ انویسٹیگیشن ڈائریکٹریٹ بنانے کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اگر آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس، آئی بی، پولیس ا سپیشل برانچ اور دوسرے سیکیورٹی ادارے ایک دوسرے سے دہشتگردی سے متعلق اطلاعات شئیر کریں گے تو اس کا فائدہ بہت ہو سکتا ہے ۔ لیکن ایسا کیوں نہیں کیا جا رہا؟؟ رکاوٹ کیا ہے؟؟؟ اسی طرح سب کو معلوم ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی کیے بغیر دہشتگردی اور جرائم کی روک تھام ممکن نہیں۔ اس پر بھی بہت بات ہو چکی حتی کہ اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلے آ چکے لیکن وفاقی و صوبائی حکومتیں پولیس کو غیر سیاسی کرنے سے کیوں گھبرا رہے ہیں۔ خیبر پختون خواہ کے علاوہ وفاق اور تمام صوبائی حکومتیں پولیس کو سیاسی اثرات سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کر رہیں اور اس کا فائدہ دہشتگرد اور جرائم پیشہ افراد اٹھا رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں کو دو سال کے لیے قائم کیا گیا اور کہا یہ گیا تھا کہ اس دوران موجودہ ناکارہ کریمنل جسٹس سسٹم (یعنی پولیس، انویسٹگیشن، استغاثہ اور عدالتی نظام) میں اصلاحات لا کر اس لائق بنایا جائے گا کہ دہشتگردی اور دوسرے جرائم سے متعلق فیصلے جلدی ہوں اور مجرموں کو بغیر وقت ضائع کیے نشان عبرت بنایا جا سکے۔ لیکن اس بارے میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کوئی خاطر خواہ کام نہ کیا اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ حکومت فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام کے لیے ایک بار پھر آئین میں ترمیم کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کر رہی ہے۔ سول اور ملٹری سیکیورٹی ایجنسیوں نے گزشتہ دو تین سال کے دوران ہزاروں کارروائیاں کیں ا ور بڑی تعداد میں مبینہ دہشتگردوں کو ہلاک کیا اور گرفتاریاں کیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اب دہشتگردوں کے لیے پاکستان کے اندر کوئی محفوظ مقام موجود نہیں۔ سرکاری دعووں کے مطابق اب افغانستان میں موجود دہشتگرد گروپ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ عمومی طور پرخودکش بمباروں اور دہشتگردوں کا تعلق پاکستان سے ہی ہوتا ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی پلاننگ کرنے والوں کو ابھی بھی کارروائیوں کے لیے ہمارے ہی لوگ مل جاتے ہیں۔ یعنی اسلامی تعلیمات کی غلط تشریحات کر کے آج بھی چھوٹی عمر کے بچوں کی برین واشنگ کر کے انہیں خودکش بمبار بنایا جاتا ہے اور انہیں دہشتگردی کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی برین واشنگ اور غلط نظریات کو کاونٹر کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہر میڈیا کے ساتھ ساتھ مسجد اور مدرسے کے ذریعے اسلام کی اصل تعلیمات کو عام کرے ۔ اس کام کے لیے حکومت فوری طور پرتمام مکاتب فکر کے علماء کی میٹنگ بلا کر ایک لائحہ عمل طے کرے جس کے نتیجے میں پاکستان کی ہر مسجد اور ہر مدرسے سے دہشتگردی کے خلاف ایک آواز اُٹھنی چاہیے۔ غلط تصورات اور نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی اصل تعلیمات کو عام کرنا ہو گا اور سب کو یہ بتانا ہو گا کہ دین اسلام میں کسی بھی انسان اور مسلمان کی جان کی حرمت کی اہمیت کیا ہے اور جہاد اور دہشتگردی میں فرق کیا ہے۔

.
تازہ ترین