• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان کی شناخت محض یہ نہیں کہ وہ سندھ و ملک کے انتہائی متنازع لیکن دبنگ سیاستدان کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ اگرچہ وہ خود سندھ کی سیاست میں متنازع رہیں لیکن وہ ایک اعلیٰ پائے کی جدید تاریخ دان، استاد اور عالم و اکابرہ تھیں۔ وہ سندھ کے نام نہاد ’’مرد آہن‘‘ کہلانے والے سابق حکمران و سیاست دان محمد ایوب کھوڑو کی قابل فخر بیٹی ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو تھیں جن کا گزشتہ ہفتے طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ ’’موت العالم موت العالم‘‘ ( عالم کی موت دنیا کی موت ہے) عربی کی اس کہاوت میں کتنی نہ صدیوں و زمانوں کی صداقت لگتی ہے۔ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو اگر دیکھا جائے تو اسی طرح کی عالم تھیں۔ بس ان کی بدقسمتی یہ تھیں کہ وہ نہ فقط سندھ جیسے خطے میں پیدا ہوئیں بلکہ ایک ایسے خاندان میں بھی پیدا ہوئیں جس کی سندھ کے ساتھ وفاداریاں بہت ہی اہم معاملات میں ’’مشکوک‘‘ بھی دیکھی گئیں۔ مثال کے طور پر ون یونٹ کے قیام میں ان کے والد کا کردار۔
’’یہ بھٹو یہ کھوڑو یہ میمن یہ قاضی سندھ کے عظیم کسان رہنما بابائے سندھ حیدربخش جتوئی کی ایک شہرہ آفاق نظم کی سطر ہے جس کی دوسری سطر ہے کہ یہ لوگ بقول جتوئی صاحب کہ سندھ کو فروخت کرکے وزارتوں پر راضی ہوگئے۔ بہرحال، پھر وہی بات کہ لاڑکانہ کی مٹی میں نہ جانے کیا اثر ہے کہ جادو ہے اس نے کیسے کیسے لوگ پیدا کئے۔
پھر ان کا تعلق بھی لاڑکانہ کی سرزمین سے تھا۔ لاڑکانہ کا وزیراعظم ہو، وزیراعلیٰ کہ تاریخ دان و سیاستدان بہرحال فرق صاف ظاہر ہے۔ اگرچہ وہ اس طبقے کی اور ’’سندھ کلب‘‘ کلاس کی خاتون تھیں جو جتنے بھی انقلابی بنتے ہوں لیکن واقعی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں پھر وہ طارق علی ہو کہ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو انکی دانشوری اور تخلیقی و تحقیقی کارگزاریوں کی کوئی کلاس نہیں ہوتی۔ لیکن ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کے ساتھ یہ ہوا کہ وہ اپنے والد اور کلاس کے دفاع میں کافی حد تک ایک بحث میں مصروف رہی تھیں۔ بدقسمتی سے نہ چاہتے ہوئے بھی ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کو ایک اسکالر اور مورخ کم اور کھوڑو کی بیٹی کی حیثیت سے زیادہ برتا گيا۔
برسبیل تذکرہ، سندھ جہاں تقسیم کی خونریزی سرے سے شاذ ونادر ہوئی تھی اس کے کراچی اور حیدرآباد سمیت شہروں میں بعد تقسیم کن نئے شرپسندوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر لوٹ ماری شروع کی گئی۔ ایوب کھوڑو قیام پاکستان کے وقت سندھ کے چیف منسٹر تھے اور ایک دبنگ وزیراعلیٰ کہلاتے تھے۔ وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو خود ہاتھ میں پستول لے کر کراچی کی گلیوں میں شرپسندوں کو للکارنے نکل پڑے تھے۔ وہ فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیر دفاع بھی رہے۔ ابن حیات پنہور کی حال ہی میں آنے والی یادداشتوں اور تحریروں کی کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ کھوڑو ایوب خان کو مارشل لا کی سازش کرنے پر گرفتار کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے اسوقت سندھ کے وزیر اعلیٰ عبدالستار سے مدد بھی مانگی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ لیکن یہی کھوڑو تھےجو ون یونٹ کے حق میں سندھ اسمبلی کے ووٹ حاصل کرنے کو وزیر اعلیٰ بنوائے گئے۔ انائوں نے بزور ریاستی طاقت اور ریاستی دہشت کے ون یونٹ کے حق میں ووٹ دلوائے۔ سندھ کے اکثرلوگ انہیں ’’سندھ کا غدار‘‘ سے کم کے خطاب سے نہیں نوازتے۔ صرف جی ایم سید، رئیس غلام مصطفی بھرگڑی، عبد المجید جتوئی اور شاید شیخ خورشید تھے جنہوں نے ون یونٹ کے خلاف ووٹ دیا تھاکھوڑو خاندان سندھ کا جاگیردار خاندان تھا جس کے جی ایم سید، اکبر بگٹی، ہارون، اور دولتانہ خاندان کے ساتھ قدیمی تعلقات رہے۔ دولتانہ کے ساتھ تو رشتہ داری ہے کہ دولتانہ کی بیٹی حمیدہ کھوڑو کی بھاوج ہیں۔ انیس سو ستر کے انتخابات میں جب اکبر بگٹی بھٹو کے مقابلے میں انکے والد کی حمایت میں ہونیوالے جلسے میں شرکت کرنے آئے تھے تو رات کا کھانا انہوں نے بھٹو کی ہی رہائش گاہ پر کھایا تھا۔ حالانکہ تقریر بھی بھٹو کے خلاف شعلہ بار کی تھی۔ یہ ان دنوں سیاسی کلچر میں ایک برداشت کا بڑا عنصر ہوا کرتاتھا۔
پھر جی ایم سید نے جب سندھ کے باقی لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر ون یونٹ کے خلاف اینٹی ون یونٹ فرنٹ بنایا تو اس کے پہلے اجلاس میں کھوڑو کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ جس پر پلیجو اور جام ساقی سمیت کئی نوجوان ان سے اپنی سیاسی راہیں الگ کرگئے۔
حمیدہ کھوڑو بحیثیت مورخ بھی اپنے والد کے دفاع میں تاریخ کی عدالت میں اپنے والد کی بریت کا مقدمہ لڑتی رہی تھیں اور انہوں نے محمد ایوب کھوڑو کی سوانح عمری پر کتاب بھی لکھی ہے۔ وہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے بے نظیر بھٹو بقول شخصے یہ کبھی ماننے کے لئے تیار نہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا انیس سو اکہتر میں سابقہ مشرقی پاکستان اور انیس سو تہتر میں بلوچستان میں بطور وزیراعظم نہایت ہی منفی کردار رہا تھا۔ حمیدہ کھوڑو نے تاریخ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور جو ان کی سندھ کی تاریخ پر بنیادی کتاب ہے وہ ان کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کا تھیسز تھا جو پھر کتاب کی صورت میں شائع ہوا،’جدید سندھ کی تعمیر میں برطانوی پالیسی اور انیسویں صدی کی سماجی تبدیلی‘۔ لیکن سندھ میں ایوب کھوڑو کی یہ صاحبزادی تب مشہور ہوئیں جب انیس سو اکہتر کے حالات پر انہوں نے لندن سے ’’پاکستان کا پوسٹ مارٹم‘‘ کے عنوان سے تجزیاتی مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں پاکستان اسٹیڈیز شعبے کی سربراہ رہیں۔ اور درس و تدریس کے ہی دنوں میں وہ سیاست میں دانشورانہ سطح پر سرگرم ہوگئیں۔ ان کی شادی پروفیسر قاضی عبد الحلیم سے ہوئی تھی۔
جی ایم سید نے انہیں جئے سندھ تحریک میں ایک ممتاز جگہ دی۔ جلد ہی انہوں نے نوجوانوں کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیا جن میں پڑھے لکھے اور سیاست میں تشدد پسند دونوں طرح کے نوجوان شامل تھے۔ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو حتی الامکان اور کبھی کبھی تو امکان سے باہر بھی جئے سندھ کے نوجوانوں اور کارکنوں کی مدد کیا کرتیں اور ان کے کراچی کلفٹن اور لطیف آباد حیدرآباد کے بنگلوں پر بھی نوجوانوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہوتا۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو اور ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں حیدرآباد کے سابق میئر آفتاب شیخ کے بنگلوں کے درمیان صرف ایک دیوار کھڑی ہونے کا فرق تھا۔ اس زمانے میں میئر آفتاب شیخ اور حمیدہ کھوڑو کے گروپ کے نوجوان کے درمیان پہلے اخباری بیان بازی اور اس کے نتیجے میں پھر لسانی خونی فسادات شروع ہوگئے۔ حمیدہ کھوڑو پر سندھ کی قوم پرست تحریک سے وابستہ اور اس کے مخالف گروہوں اور لوگوں نے کئی الزامات لگائے۔ لیکن یہ حیرت کن بات ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو سمیت ضیاالحق ہر شخص کو پھانسی کی سزائیں دے رہا تھا تب اس نے جامشورو میں دو فوجیوں کے قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والے قوم پرست طالب علم رہنمائوں علی حیدرشاہ اور قادر بخش جتوئی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ جنرل ضیانے حمیدہ کھوڑو کی طرف سے پیر پگاڑو کے کہنے پر کیا تھا۔
حمیدہ کھوڑو مستقل طور سیاست میں آ گئیں اور انہوں نے سندھ قومی اتحاد سے پھر پاکستان مسلم لیگ میں شرکت کی۔ وہ سندھ قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے بینظیر بھٹو کے خلاف اپنے آبائی حلقے سے انیس سو اٹھاسی کا انتخاب لڑیں لیکن ظاہر ہے کہ ہار گئیں، لیکن وہ جام صادق علی کے تحت ہونے والے انتخابات میں صوبائی نشست پر انتخاب جیت کر اسمبلی میں پہنچیں دوسری بار وہ فوجی آمر پرویز مشرف کے دنوں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پر انتخابات جیت کر آئیں اور سندھ میں وزیر تعلیم بنادی گئیں۔ تعلیم کا شعبہ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کا اصل میدان تھا۔ انہوں نے بیماری کے دنوں میں بھی تاریخ پر تحقیق کاکام جاری رکھا۔ سندھ جس نے مقامی طورپر زیادہ تر تذکرہ و وقائع نویس پیدا کئے ہیں وہاں اس دور میں ڈاکٹر مبارک علی کے ساتھ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو ایک بہت بڑا کرشمہ جاتی تاریخ دان تھیں۔

.
تازہ ترین