• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز میرے ایک دوست نے تازہ تازہ اسلام ’’قبول‘‘کیا ہے، یعنی اس نے اپنی زندگی کی پہلی نماز جمعہ ادا کی ہے اور وہ اس کے بعد سے نماز کے لئے سراپا تحسین بنا ہوا ہے۔ وہ گزشتہ روز میرے پاس آیا تو اس کی باتوں سے لگا کہ میں کسی مبلغ اسلام کی صحبت میں بیٹھا ہوا ہوں۔ وہ بولا ’’یار عطاء نماز تو نماز، یہ وضو بھی کمال کی چیز ہے۔ ‘‘
میں نے پوچھا ’’کیا مطلب ‘‘
کہنے لگا ’’پہلے میں نے ہاتھ دھوئے جو میں کم ہی دھوتا ہوں۔ اس سے ہاتھوں پر جمع گردو غبار صاف ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے کلی کی اور ناک کے دونوں نتھنوں میں پانی ڈالا جو کافی دور تک اندر گیا جس سے منہ اور ناک کی ساری غلاظتیں خارج ہوگئیں۔ یہ نصیحت تو میرا ڈاکٹر مجھے کیا کرتا تھا مگر میں نے اس کی نہیں مانی تھی مگر اس عمل کے نتیجے میں میرا ناک جو بند چلا آرہا تھا وہ کھل گیا، پھر میں نے منہ سے لے کر پائوں تک اپنے جسم کے باقی حصے بھی دھوئے اس سے نہ صرف یہ کہ میرا جسم آلودگیوں سے پاک ہوگیا بلکہ میں نے خود کو بہت فریش بھی محسوس کیا۔‘‘
میں اپنے دوست کی یہ باتیں بہت دلچسپی سے سن رہا تھا کیونکہ ان باتوں کی کبھی اس سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔اس نے مجھے اپنی جانب متوجہ پایا تو اس کے جوش و خروش میں اضافہ ہوگیا۔
اس نے کہا’’اور سچی بات یہ ہے کہ نماز کا تو جواب ہی نہیں‘‘
میں نے جواب دیا’’اس میں کیا شبہ ہے‘‘
بولا’’پہلے مجھے شبہ تھا، اب نہیں رہا۔ یار، یہ تو عبادت کی عبادت اور ایکسر سائز کی ایکسر سائز ہے۔ روح اور جسم دونوں کو سکون ملتا ہے میں تو اب پانچوں نمازیں باقاعدگی سے ادا کرنے کی سوچ رہا ہوں۔‘‘
میرا خیال تھا کہ اس کا’’ بیان‘‘اب ختم ہوگیا ہے لیکن اس ’’ نومسلم‘‘ کا جوش و خروش تو ابھی تک عروج پر تھا۔ اس نے ایک دفعہ پھر مجھے مخاطب کیا اور کہا’’یار جب میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کررہا تھا اور اس کا ترجمہ دل ہی دل میں دہراتا جارہا تھا تو بہت لطف آتا تھا۔ ‘‘
’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو سارے جہانوں کا رب ہے ، جو رحمان و رحیم ہے، جو روزہ جزا کا مالک ہے۔ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا رستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن کو تو نے انعام سے نوازا۔ ان کا راستہ نہیں جن پر تو نے غضب کیا اور جو گمراہی پر ہیں!‘‘
مجھے اس کے ترجمے میں کہیں کہیں جھول نظر آیا لیکن میں خاموش رہا کیونکہ میری تمام توجہ اس کی بدلی ہوئی ذہنی حالت پر تھی چنانچہ اس بار میں نے اس سے پوچھا’’پھر کیا ہوا؟‘‘
بولا’’پھر یہ کہ نماز سے فراغت کے بعد میں نے محسوس کیا کہ..... ‘‘
میں نے اسے درمیان میں ٹوکا’’یہی کہ تم اب ایک نیک انسان ہو کیونکہ تم نے نماز شروع کردی ہے اور باقی ساری دنیا گنہگار ہے‘‘
اس پر میرا دوست گڑبڑا کر بولا’’لاحول ولا قوۃ، یہ تم نے کیسی بات کہہ دی، میری سوچ تو اس سے بہت مختلف تھی‘‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا’’وہ کیا؟‘‘
اس نے کہا’’یہی کہ میں بہت بڑا منافق ہوں‘‘
یہ سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا کیونکہ یہ اس کی تمام تر گفتگو کا اینٹی کلائمکس تھا!
پیشتر اس کے کہ میں کچھ کہتا ، اس نے کہا’’میری اس بات پر اپنا ردعمل دینے کی بجائے تم صرف میرے سوالوں کے جوابات دیتے جائو، اس کے نتیجے میں تمہیں میری بات سمجھ ا ٓجائے گی۔‘‘
میں بےبسی سے بولا’’پوچھو ‘‘اس کے بعد میرے اور اس کے درمیان یہ گفتگو ہوئی۔
’’ہم نماز کے دوران کیسی سیدھی قطار بناتے ہیں، بناتے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’اور ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا اور پائوں سے پائوں ملا کر کھڑے ہوتے ہیں تاکہ خالی جگہ دیکھ کر شیطان ہماری صفوں میں نہ گھس آئے اور ہم میں نفاق نہ ڈالے؟‘‘
’’ہاں، ایسا ہی ہے!‘‘
’’نماز کے دوران محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’تو پھر ایسا کیوں ہے کہ مسجد سے نکلتے ہی ہم قطار بنانا بھی بھول جاتے ہیں۔ نفاق کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آنے لگتے ہیں اور محمود و ایاز کے درمیان پھر وہی خلیج حائل ہوجاتی ہے جو نماز کے دوران ختم ہوگئی تھی۔ کیا ہم منافق نہیں ہیں؟‘‘
’’تم خود ہو گے، میں تو نہیں ہوں‘‘
’’میں تمہاری پارسائی کے دعوے بعد میں سنوں گا پہلے یہ بتائو کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے دوران ہم جب خدا سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کریں گے ،صرف تجھ ہی سے مدد مانگیں گے اور یہ بھی کہ ساری تعریفیں صرف تیرے ہی لئے ہیں تو سلام پھیرتے ہی ہم ان وعدوں سے مکر کیوں جاتے ہیں؟‘‘
’’کب مکرتے ہیں؟‘‘
’’تمہیں نہیں پتہ کب مکرتے ہیں؟ ہم ہر آستانے پر سجدہ ریز ہوتے ہیں، ہم خدا کے سوا ہر ایک سے مدد مانگتے ہیں، ان سے اپنی مشکلیں حل کرنے کے لئے کہتے ہیں، ہم بے شمار خدائوں کی عبادت کرتے ہیں اور دن رات ان کی حمد بیان کرتے رہتے ہیں، کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟‘‘
’’تم صحیح کہہ رہے ہو؟‘‘
’’تو پھر کیا ہم سب منافق نہیں ہیں؟‘‘
’’تم خود ہوگے‘‘
’’تمہیں کون سا سرخاب کا پر لگا ہے کہ تم منافق نہیں ہو‘‘
’’منافق ہونا ایک بات ہے، منافق کہلوانا دوسری بات ہے، میں اپنے لئے یہ خطاب پسند نہیں کرتا‘‘
’’یہ تمہاری منافقت کا ایک اور ثبوت ہے؟‘‘
’’ تم یہ چارج شیٹ چھوڑو یہ بتائو کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ ‘‘
’’یہی کہ مجھے نماز میں بہت سرور محسوس ہوا ہے، یہ سلسلہ آگے بڑھائوں گا لیکن نماز میں جو وعدہ خدا سے کروں گا ،مسجد سے نکل کر اس سے منحرف نہیں ہوں گا تاکہ میرا شمار بھی منافقین میں نہ ہو!‘‘
’’پھر کیا ہوگا؟‘‘
’’پھر یہ کہ اللہ مجھ سے خوش ہوگا؟‘‘
’’اللہ کے خوش ہونے سے کیا تمہارے متعلقین تم سے خوش رہ سکیں گے؟کیا تم نے اس بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘‘
’’میں جب ایمانداری سے کام کروں گا تو وہ خوش کیوں نہیں ہوں گے؟‘‘
’’تمہیں یقین ہے کہ تمہارے بزنس پارٹنر کو، تمہارے اہل خانہ کو یا تمہارے اہل محلہ کو تمہاری ایمانداری اور خدا ترسی سے کوئی غرض نہیں؟‘‘
میرے اس سوال پر میرا دوست پریشان ہوگیا اور اس نے کہا’’میں جانتا ہوں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ان کے صرف مقاصد پورے ہونے چاہئیں خواہ وہ جس طرح بھی پورے ہوں ،لہٰذا تم ہی بتائو مجھے کیا کرنا چاہئے!‘‘
میں نے جواب دیا’’وہی جو ہم سب کرتے ہیں، ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں، درودپاک کا ورد بھی کرتے ہیں، چلے بھی کاٹتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہیر پھیر بھی کرتے رہتے ہیں۔ تم بھی صرف نمازیں پڑھو اور دیگر عبادات میں بھی پوری محویت سے مشغول رہو لیکن ان عبادات کی روح اور مقصد کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے خدا کو خوش رکھے لیکن شیطان کو بھی ناراض نہ ہونے دے!‘‘


.
تازہ ترین