• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے رحم بیان، بے رحم آپریشن
وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن کہتے ہیں، پنجاب میں ضرورت ہوئی تو آپریشن ہوجائے گا جبکہ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے کہا ہے، بے رحم آپریشن کیا جائے اور ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں کے بموجب پنجاب آپریشن سے بچ نہیں سکتا، کیونکہ وزیر اعظم کا قول ایک وزیر کے قول کو منسوخ کردیتا ہے، یعنی مسئلہ ناسخ و منسوخ نکل آیا تو پھر پنجاب میں کیا اب بھی ضرورت پڑنے کی ضرورت کا انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات شدت غم میں آنسو بہتے بہتے ہنسی نکل جاتی ہے کہ دونوں میں فاصلہ ہی اب وطن عزیز میں کتنا رہ گیا ہے۔ پنجاب میں جو دھماکہ لاہور کے دل مال روڈ پر ہوا اور قیمتی جانیں لے گیا، وہ کوئی سیریل لگتا ہے، کہیے آپریشن اور وہ بھی بےرحم ضروری ہے کہ نہیں، وزیر مملکت برائے داخلہ کی عقل و خرد کو سلام مگر پولیس کے نہایت جری اور قیمتی افسران و اہلکاران کی شہادت بمعہ شہریان لاہور کی شہادت کوئی معمولی نقصان اور چھوٹا سانحہ نہیں۔ یہ کہنا کہ پی ایس ایل کے میچوں کو رکوانا مقصود تھا، سعی بے مقصود ہے۔ دہشت گرد جو کہ اب کسی سے چھپے ڈھکے نہیں اور وہ کسی کے ایماء پر یہ قیامتیں ڈھاتے ہیں ان کے پیش نظر شاید لاہور جمخانہ میں شراب پینے کا شوق ہے۔ دہشت گردوں کا کنٹرول لائن سے ہماری لاہور لائن تک آپہنچنا کیا آپریشن ان پنجاب کا تقاضا نہیں کرتا اور کرکٹ بھی کون سی کرکٹ جس میں جووئوں کی جگہ جوأ پڑگیا ہے۔ چھوڑیئے یہ ایک الگ درد ہے اور ہماری گزارش ہے بزبان مولانا محمد علی جوہرؔ
وصل کی شب نہ چھیڑ قصہ درد
وہ کسی اور دن سنا لینا
٭٭ ٭ ٭ ٭
قابل داد و بیداد
خواجہ آصف اور رانا ثناء نے تصدیق کردی ہے کہ خود کش حملہ آور کا ٹارگٹ وزیر اعلیٰ تھے، جب سے لکھنا سیکھا ہے آج پہلی بار اس خبر پر کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی کیونکہ اس کے مطلب و معانی ا س قدر واضح ہیں جیسے چڑھتا سورج، نکلتا چاند، خواجہ رانا ہر دو وزراء کرام قابل صد احترام اور مستند ان کا کلام، سچ ہے جسے خدا رکھے اسے کون چکھے۔ شکر ہے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ بچ گئے اور ناقابل فراموش غم ہے ان شہیدوں کا جو فرض کی ادائیگی کے دوران سرخرو ہوئے۔ وہ زندہ رہیں گے کہ تنازع ختم کرارہے تھے۔ دہشت گردوں کو ختم کیا جاسکتا ہے نہ ان بارے کوئی پیش گوئی ، بجلیاں کڑکتی کہیں ہیں گرتی کہیں ہیں۔ ہمارے ارباب بست و کشاد ہوں یا بے بس عوام سب کو خبر ہے کہ دشمن ہر بار باہر نہیں اندر ہوتا ہے۔ باہر کے دشمن کا کھاتہ کھلا ہوا ہے جس کا جی چاہے اپنا ادھار اس میں ڈال دے، کم از کم اتنا’’فائدہ‘‘ تو ہے کہ اندر سے کوئی نہیں چکائے گا۔ خواجہ آصف اور رانا ثناء کی بات اپنی جگہ تازہ سچ لیکن اس بیان سے سانحہ لاہور کچھ گہنا سا گیا ہے۔ ایک سانحہ پر اس قدر خوبصورت سیاست قابل داد ہے بیداد نہیں۔ ہمارے پاس دہشت گردی کا ٹارگٹ بھلے کوئی بھی ہو اس کے سدباب کے لئے لے دے کے ایک ہی ترکیب ہے کہ ہاتھ میں پہنے کنگن کو آئینے میں کیا دیکھنا۔ ہاتھ بھی اپنا کنگن بھی اپنا اتار پھینکیں۔ مذہب جو تہذیب سکھاتا ہے اس کی نیک نامی کی چھائوں تلے ہی دہشت گردی، دہشت گرد پل رہے ہیں۔ قاتل اتنا بدنام ہے کہ غیر قاتل کو بھی قتل کا موقع مل گیا۔ دشمن تو ہر کسی کے آس پاس ہوا کرتے ہیں لیکن اندر کے دشمن ان کو’’جی آیاں نوں‘‘ نہ کہیں تو وہ بیچاے ہماری سرحدوں پر بیٹھے فائرنگ ہی کرسکتے ہیں جس سے انسان مرتا ہے تو کبھی ایک آدھ بکری یا اس کا بچہ۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
ہمنام ہے کوئی بے نام ہے کوئی
کبھی کبھی ہمارے دل میں بھی یہ خیال آتا ہے کہ کیا ہمارا اپنے اوپر کوئی حق نہیں، کہ اپنی ذات سے متعلق سب نہیں مشتے نمونہ از خروارے ہی کچھ لکھ دیں۔ ہمارا کالم چائے کے تین دور کی مار ہے، ایک شروع میں دوسرا درمیان میں تیسرا آخر میں اور چوتھا اضافی دور مٹن کڑاہی کا۔ وہ بھی کالم سسرال روانہ کرنے کے بعد، ہر روز ایک عدد کالم اپنی استطاعت کے مطابق بنائو سنگھار کرکے بھیگی آنکھوں کے ساتھ یہ گاتے اور سسکیاں لیتے ہوئے رخصت کرنا کہ؎
بابل کی دعائیں لیتا جا،جا تجھے سکھی سنسار ملے
ہاں ایک بات اور بھی ہے جو ہمیشہ ہمارے تعاقب میں رہتی ہے کہ ہمیں اپنے نام کے ساتھ پروفیسر اور سید شروع میں لکھنا ہرگز مناسب نہیں لگتا لیکن ا یسا کیوں ہے اس کی ایک الگ چھوٹی سی کہانی ہے کہ اسی شہر صحافت میں ایک اسرار بخاری اور بھی ہیں۔ ایک عرصہ تک ان کی ڈاک مجھے میری ڈاک ان کو، ان کے فونز مجھے میرے ان کو موصول ہوتے رہے۔ پھر علاج اس نام کے نوارد کا یہ تجویز کیا کہ اب ہمیں اپنے نام سے پہلے پروفیسر سید کا سابقہ لگانا ہی ہوگا تاکہ ہم دونوں کہیں ہمراز نہ بن جائیں۔ پرائیویسی برقرار رہنی چاہئے۔ آپ یوں سمجھ لیجئے کہ آج ہم’’ایک دن اپنے ساتھ‘‘ منارہے ہیں، اتنا اذن خود کلامی تو ہونا چاہئے۔ ہمارا شوق، نباتات سے ہے، گھر کے آنگن میں پودوں، درختوں کی خدمت کی داد ہر روز شاخوں پر بیٹھے بھانت بھانت کے پرندوں سے وصول کرتے ہیں۔ یہی جنون کسی زمانے میں کتاب سے تھا اب اسے جوانوں میں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کتابیں اب صرف سجاتے ہیں کہ اندر کی کتاب بول پڑی ہے مگر جن کے پاس شباب ہے، آنکھیں ہیں، صحت و وقت ہے وہ کتاب خوانی کیوں نہیں کرتے شیطانی کیوں کرتے ہیں۔ علم کا رخ تو سبھی کرتے ہیں علم کسی کسی کا رخ کرتا ہے۔ وماعلیناالا البلاغ
زہر خندیاں
٭...دہشت گردی پر وزیر اعظم کی دل گرفتگی کا یہ عالم کہ ایک ہی سانس میں اندرون وطن پونے تین ہزار کلو میٹر کا سفر کرڈالا۔
رنگ لائے گی ہماری برق رفتاری ضرور!
٭...تین خودکشیاں، غریب پھندے سے جھول گیا۔
سب مل کر گائو، غریب پھندے سے جھول گیا رہے! پھندے سے جھول گیا رہے۔
٭...وزیر اعلیٰ پنجاب، قوم بدلہ ضرور لے گی، دہشت گرد انجام سے نہیں بچ سکتے،
انجام دہشت گرد سے بچ گیا ہے۔
٭...مال روڈ دھماکے کی فوٹیج حاصل کرلی گئی۔
الحمد للہ!
٭...غربت ، محرومی، دولت کی غلط تقسیم کیا انتہا پسندی، دہشت گردی جنم نہیں دے سکتی؟
٭...رویے انتہا پسند ہوتے جارہے ہیں، اب تو کہیں انگلی دھرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
٭...مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
میرا علاج میرے اپنے پاس ہے ۔


.
تازہ ترین