• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سڈنی سے ڈنمارک تک ہزاروں عورتیں بڑی سنجیدگی سے احتجاج کرتی ہوئی سڑکوں پر آئیں…ایسا مظاہرہ دنیا نے کب دیکھا تھا…کس کو خبر تھی کہ خواتین ذہنی طور پر اتنی باشعور ہوچکی ہیں کہ ایک منتخب صدر کو اس لئے نہیں تسلیم کر رہیں کہ اس نے انتخابی مہم کے دوران، خواتین کے بارے میں نازیبا کلمات کہے تھے کہ وہ عورتوں کو کھلونا سمجھ کر دولت کے نشے میں زندگی گزارتا رہا تھا، ان خواتین میں کسی بھی اسلامی ملک کی خواتین شامل نہیں تھیں کہ مشرق وسطیٰ میں تو عورت کو گاڑی چلانے کی بھی اجازت نہیں ہے، عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق تو ہمارے بھی فاٹا اور دیا میر کے علاقے میں نہیں ہے، اب جبکہ اسمبلی نے یہ قانون پاس کردیا ہے کہ جس ممبر کے عورتوں کے ووٹ 10فیصد سے کم ہونگے اس کو منتخب نہیں سمجھا جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے لئے صحافی منتخب کرلئے ہیں کہ سی این این کے صحافی کو بھی سوال کرنے نہیں دیا، عجیب خبر یہ ہے کہ صدارت کے عہدے سے اترنے کے بعد، اوباما نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ گھر میں اورنج جوس سے لیکر گھر کی ضروریات کی چیزیں ہم اپنی جیب سے خریدا کرتے تھے، یہ سن کر میرا منہ تو کھلا کا کھلا رہ گیا…ہم اپنے پرائم منسٹر یا صدرکے دفتر میں جائیں تو ون بائٹ سموسے، ون بائٹ سینڈویچ، ہر وقت مع کافی اور چائے کے لطف لیکر کھاتے ہیں، علاوہ ازیں سارے اسٹاف کیلئے کھانا مع مہمانوں کے بھی فراہم کیا جاتا ہے اس لئے ہرسال ان دونوں معزز دفتروں کا خرچہ، بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، کاش ہمارے سولہ سال کے لڑکے کا امریکہ میں بنایا ہوا وہ کمپیوٹر پاکستان حکومت حاصل کرے اور اس پر عمل بھی کرے کہ گھروں اور دفتروں کا خرچ کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔
کل میں گجرات یونیورسٹی میں تھی، یہ اچھا ہوا کہ اب یونیورسٹیوں نے بھی ادب اور ادیبوں سے ملاقات میں دلچسپی لینی شروع کردی ہے، یونیورسٹی گجرات کے ہرچند 7؍کیمپس ہیں، علاوہ ازیں صرف گجرات کیمپس میں 27؍ہزار طلبا وطالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں، گجرات یونیورسٹی میں صرف پرانے زمانے کے موضوعات پر ہی تعلیم نہیں دی جارہی بلکہ آج کی ضرورت کے مطابق میڈیا اسٹڈی، شیف ٹریننگ اور اپنے طور پر ریڈیو قائم کرنے اور کم اخراجات میں معقول آمدنی کے حصول کو ممکن بنانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے، ایک اور اہم شعبہ کہ گھروں کی آسائش اور اس سے متعلق دیگر موضوعات پر بھی باقاعدہ ڈگری کورسز شروع کئے گئے ہیں، مزا جب آیا جب طالب علموں نے خود لذیذ اشیاء اپنے ہاتھوں سے بناکر پیش کیں، مقصد دن بھر کے ادبی پروگرام کا یہ تھا کہ جن لوگوں نے ادب اور میڈیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے، ان کو نمائندہ شخصیت بننے میں کن کن کھٹنائیوں کا سامنا کرنا پڑا، آج کے چیلنج کیا ہیں تاکہ آج کی نسل خود اعتمادی کی منزل کو پہنچنے میں کامیاب ہو۔
واپسی پر میرے دل نے سوال کیا کہ خود اعتمادی صرف تم جیسوں کی گفتگو سے آئے گی کہ میڈیا پر گالم گلوچ کرتے مناظر کو دیکھ کر۔جبکہ یہ منظر ہر صوبے کی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھی نظر آتے ہیں۔جن کو ہم پڑھے لکھے مرد کہتے ہیں، وہ خواتین پر جس طرح کی فقرے بازی کرتے اور ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھاتے ہیں الیکٹرونک میڈیا پر بھی شائستگی عنقا ہوگئی ہے اور وہ جو مذہب کا نام لینے کے بعد، مغلظات سے اپنی گفتگو آراستہ کرتے اور آزادی اظہار جیسے الفاظ کو بدنام کرتے ہیں،ان کے بارے میں میری نوجوان نسل کے لڑکے لڑکیاں، سخت بددل تھے اور ہمیں بھی شرمسار کر رہے تھے کہ ان کے میڈیا میں داخلے پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی ، نوجوان اتنے ذہین ہیں کہ ہمیں بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر صاف کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ بھی عافیت کے نام پر کھل کر بات نہیں کرتے ۔ یہ نوجوان ساری دنیا کی عورتوں کے مظاہرے اور ٹرمپ کیخلاف نعروں کا حوالہ بھی دے رہے تھے، ان تک کو یاد تھا کہ کس زمانے میں، یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد، دیوار برلن بنائی گئی کہ آدھے خاندان ادھر اور آدھے خاندان ادھر تھے، چالیس برس تک یہ منظر نامہ چلا۔پھر سب نے دیکھا کہ دیوار برلن توڑنے والوں میں بچے، بڑے، بوڑھے، سب ہی شامل تھے۔ان کو بھی دیکھا کہ جنہوں نے اس دیوار کے ٹکڑوں کو مہاتما بدھ کے مجسموں کی طرح گھروں میں آویزاں کیا۔تاریخ کا یہ سبق شاید ٹرمپ صاحب نے اس لئے نہیں پڑھا کہ انہیں زیادہ پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔مال و زر بنانے والوں نے شاید امریکہ کی تاریخ اور جیفرسن جیسوں کے خطابات نہیں پڑھے، انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ آسٹریلیا ہو کہ امریکہ، مہاجروں نے آباد کئے۔ انہوں نے غرور میں مقامی آبادی کو کالے کہہ کر پیچھے دھکیل دیا۔انہیں ریڈانڈین کہا،ان کو بس میں اپنے ساتھ بیٹھنے نہیں دیا،ان کے لئے الگ اسکول، کالج بنائے، آخرکار مارٹن لوتھر کنگ نے آواز اٹھائی، سول حقوق کے نعرے بلند ہوئے۔ لگتا ہے کہ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے دن، مارٹن لوتھر کنگ کی آواز نے گندی زبان بولنے والوں کیخلاف احتجاج کیا۔سیاست کے اس رخ کو دیکھ کر ہمارے سیاست دانوں کو بھی لغت بدلنی ہوگی۔احساس ہوگا کہ ہمسائیوں کے ساتھ مذہب کا نام لیکر نہیں،امن وعافیت کا نام لیکر، مستقبل کیلئے سی پیک کے علاوہ دوسرے راستے کھولنے ہیں۔کبھی انڈیا دیوار کا نام لیتا ہے، کبھی پاکستان! دیواریں امن نہیں دیتیں۔

.
تازہ ترین