• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بین کرتا دِل اور درد پروتا قلم لفظ نہیں آنسو رقم کرتا ہے۔ کائنات میں زندگی سے بے اعتبار کوئی شے نہیں۔ انسان جو اشیاء خریدتے ہیں جو عمارتیں بناتے ہیں وہ صدیوں موجود رہتی ہیں مگر انسان پلک جھپکتے ایک جہان سے دوسرے جہان پرواز کر جاتا ہے۔ طاقت اور اختیار کے حوالے سے سب سے زیادہ مقتدر محکمہ پولیس جانثاری اور قربانی میں بھی سب سے آگے ہے۔ جب سے ملک کی فضا نفرت کے زہر سے آلود ہوئی ہے سب سے زیادہ نقصان پولیس کے جوانوں نے اٹھایا ہے۔ کوئی بھی موسم ہو، دن ہو یا رات وہ ناکوں، سڑکوں اور جلوسوں کے سامنے تن تنہا، نہتے ڈٹے رہے۔ تھوڑے سے اسلحے اور بہت سارے حوصلے کے ساتھ اپنی زمین اور اپنے لوگوں کی حفاظت پر مامور یہ چاق و چوبند جوان دیگر لوگوں سے کئی حوالوں سے مختلف ہیں۔ قدرت نے انہیں اضافی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں اور کچھ ضابطے ان کی وردی نے ان پر لاگو کر دیئے ہیں اس لئے ان کے فرائض کے اوقات کار دیگر دفاتر کی طرح آٹھ گھنٹوں پر محیط نہیں، ان کے پاس پاک فوج کی طرح جدید اسلحہ اور ٹینک بھی نہیں۔ کھلے آسمان تلے ایک آدھ پستول، رائفل یا محض ایک چھڑی لے کر ان دیکھی قوتوں کی منصوبہ بندیوں کے سامنے سینہ سپر رہتے ہیں۔ کئی دفعہ ہنگامی حالات میں چوبیس گھنٹے گزر جاتے ہیں اور ان کو آرام کا ایک پل میسر نہیں آتا۔ جواب میں کچھ لوگوں کی کوتاہی کا پورے محکمے کو طعنہ سننا پڑتا ہے، ناراضی برداشت کرنی پڑتی ہے، خفگی سہنی پڑتی ہے مگر یہ سب جھیل کر بھی وہ اپنا فرض نبھانا نہیں بھولتے، روٹھ کر نہیں بیٹھتے، ہڑتال پر نہیں جاتے۔ ان کے پاس سہولتیں کم ہوں، آرام کے لئے وقت نہ ہو، شفٹیں مقرر نہ ہوں اور تنخواہ کےا سکیل ان کے من پسند نہ ہوں۔ بچوں کی ضروریات تڑپاتی رہیں مگر ایسے پختہ عزم ہیں کہ کبھی ہڑتال پر جاتے ہیں نہ کام کرنا ترک کرتے ہیں کیوں کہ جانتے ہیں کہ معاشرے قانون کے بل بوتے پر قائم ہیں۔ اگر ایک دن سڑکوں پر ان کی موجودگی مشکوک ہو گئی تو زندگی درہم برہم ہو جائے گی۔ ان کی خدمات کو سراہنے والے کم اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اور جلی کٹی سنانے والے بہت ہیں جس کی وجہ سے ان کا مزاج بھی کبھی کبھی برہم ہو جاتا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ان کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سیلوٹ کیا ہے؟ مسکرا کر انہیں تعظیم دی ہے؟ سر ہلا کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے؟ بالکل نہیں اس لئے کہ ہمیں تو سلامی لینے کی عادت ہے۔
جس دن پوری دنیا محبت کے جذبوں کا اظہار سرخ پھولوں میں کرنے والی تھی اس دن ہم نے اپنے بہت ہی قابل اور وطن پرست افسروں کو سرخ پھولوں میں لپیٹ کر زمین کی گود میں ڈال دیا۔ یہ کیسے افسر تھے کہ جن کے لئے پورا پاکستان سوگوار ہے، ہر آنکھ نم ہے، ہر دل اداس ہے۔ وہ اس دھرتی کے بیٹے تھے۔ میرے اپنے تھے۔ ان کی ترجیح دھرتی کی حفاظت اور اپنے ہم وطنوں کا تحفظ تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا ملک جسے ہر روز نئی نئی دھمکیوں کا سامنا ہو، جہاں مختلف طاقتیں زور آزمائی کر رہی ہوں اور جہاں زندگی کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہو وہاں مال روڈ، جہاں جلسے جلوس نکالنے پر پابندی ہو، جیسی سڑک پر احتجاج کرنا اور شہریوں کا ناطقہ بند کر دینا کیسی دانش مندی ہے؟ اس سڑک پر ہزاروں لوگ سفر کرتے ہیں اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے پورے لاہور کا ٹریفک متاثر ہوتا ہے۔ بیماروں اور لاچاروں کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ احتجاج کرنا جمہوری حق سہی لیکن وہ عمل کس طرح حق بجانب ہو سکتا ہے جس سے بے شمار لوگوں کو تکالیف برداشت کرنی پڑیں؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اپنے تمام مذہبی، ثقافتی اور سیاسی اجتماع چار دیواری کی حدود میں منعقد کریں تا کہ آمد و رفت کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی بحال رہے۔ لندن کی طرح لاہور میں بھی کسی جگہ ایک ہائیڈ پارک بنا دینا چاہئے۔ کبھی ناصر باغ ہائیڈ پارک کا کام کرتا تھا لیکن اب موجودہ صورت حال میں لوگوں کا ہجوم کسی بھی کھلی جگہ پر خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ اگرچہ کئی دنوں سے لاہور میں دہشت گردی کی خبریں عام تھیں اس کے باوجود کچھ لوگوں نے مال روڈ کو مسلسل یرغمال بنائے رکھا۔ سی ٹی او کیپٹن (ر) سید احمد مبین اور ایکٹنگ ڈی آئی جی زاہد اکرام گوندل احتجاج کرنے والوں کو رستہ صاف کرنے پر قائل کرتے رہے تا کہ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے مگر اسی وقت ان کی اپنی جان نشانے پر آ چکی تھی کیوں کہ ماننے والوں نے تھوڑی سی دیر کر دی تھی۔ مطالبات منوانے والے پتہ نہیں کس قدر کامیاب ہوئے مگر جو خسارہ ہم سب کو بھگتنا پڑا اس کا مداوا کون کرے گا؟ وطن کے جاں نثار بیٹے اپنی قربانی دے کر سرخرو ہوئے مگر دلوں میں درد بو گئے۔ لاہور کی فضائیں ایک دفعہ پھر نوحہ کناں ہیں۔ دلوں میں چیخیں ہیں مگر لبوں پر سناٹا۔ خوشیوں نے ماتمی لباس پہن لیا ہے۔ ہر انسان کی زندگی قیمتی ہے مگر احمد مبین اور زاہد اکرام گوندل جیسے فرض شناس افسر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ نہ جانے موت کا کھیل کھیلنے والوں کو کتنے پھولوں کا لہو درکار ہے؟ نہ جانے ان کے دلوں کی میل کب دھلے گی اور ان پر خدا کا جلوہ برسے گا۔ پتہ نہیں وہ کس دھرتی کے بیٹے تھے؟ کس ماں کے جائے تھے؟ کس بہن کے بھائی تھے؟ جنہوں نے ایک دنیا کو لہو رُلا دیا اور خود بھی خاک ہو گئے۔ کیا زندگی تماشہ ہے؟ اگر یہ خدا کی امانت ہے تو خیانت کی سزا کیا ہے؟ انسانیت کس چیز کا نام ہے؟
حیرت اس بات کی ہے کہ جب پوری قوم سوگواری کے عالم میں ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے اس موقع پر بھی پولیس کو برا بھلا کہنے سے گریز نہیں کیا۔ انہیں غصہ یہ ہے کہ وہ حکومتِ وقت کا حکم کیوں مانتے ہیں؟ بغاوت کر کے لاقانونیت کی راہیں ہموار کیوں نہیں کرتے؟ یہ سب باتیں ان کے عزیز و اقارب کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ آج تو پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں، آج تو انہیں بخش دیں، آج تو صرف ان کے جذبے کو سلام کریں اور حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے تخریب کاری کی کارروائی کو نیشنل ایکشن پلان سے جوڑ کر جواز فراہم نہ کریں۔ آئیے اپنے بہادر افسروں کا دِل سے احترام کر کے ان کا مورال بلند کریں۔ پرامن پاکستان کے قانون کی حکمرانی تسلیم کرنی ہو گی۔ جلسے جلوسوں کی بجائے میڈیا کے ذریعے حکومت تک اپنا احتجاج پہنچائیں۔ کیپٹن (ر) مبین احمد اور زاہد گوندل شہادت کی چادر اوڑھ کر امر ہو گئے، وطن کے ہر شہری کی سلامی قبول کیجئے۔

.
تازہ ترین