• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حق خودارادیت پر برطانوی پارلیمنٹ میں بحث تحریر:سردار عبدالرحمٰن …بریڈفورڈ

(دوسری قسط)
خالد محمود ایم پی نے کہا کہ کشمیر کے متعلق بحث کرتے وقت دو کلیدی باتوں کا خیال رکھنا چاہئے یعنی کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور حق خودارادیت۔ کئی لوگوں کو ان دونوں موضوعات کے بارے میں فکر ہے۔ میرے لئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کلیدی مسئلہ ہے۔ پھر شہری آزادیوں کا سلب ہونا مقبوضہ کشمیر کا بڑا مسئلہ ہے۔ ہندوستان جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے۔ ہندوستانی فوج نے غیر قانونی طور پر 1947 میں کشمیر پر قبضہ کیا۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیاں ہماری پالیسی ایشوز ہیں۔ شیڈو فارن سیکرٹری نے فارن سیکرٹری کو ہندوستان کا دورہ کرنے سے پہلے لکھا تھا کہ وہ ہندوستانی حکومت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاہدہ اٹھائے۔ کشمیر میں ہندوستان کی پانچ لاکھ سے زیادہ فوج متعین ہے اور وہ بلا روک ٹوک سویلین آباد کے ساتھ ذلت آمیز اور انسانیت سوز سلوک کر رہی ہے۔ بے گناہ لوگوں کو پابا زنجیر کرکے ٹارچر کیا جا رہا ہے، یہ بات جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ ہماری حکومت اس پر خاموش ہے۔ امید ہے کہ ہمارے وزیر صاحب اس پر غور کریں گے اور حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھائیں گے، عورتوں کا گینگ ریپ (اجتماعی زیادتی) ہو رہی ہے۔ گھر سے باہر نکلتے وقت لوگ ڈرتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ کیا وہ زندہ واپس گھر پہنچ سکیں گے۔ اجتماعی قبور دریافت ہو رہی ہیں۔ کئی ذرائع سے ہندوستانی مظالم کی شہادتیں گھٹی ہوئی ہیں۔ بچوں کی تعلیم میں رکاوٹیں ہیں۔ کالجز اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کشمیریوں کی چھٹی جنریشن اس دوزخ سے گزر رہی ہے، منسٹر صاحب اور حکومت کو ہمارے کشمیریوں کی مشکلات کو غور سے سننا چاہئے۔ یہ ظلم اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو اس پر سب اطراف سے زور شور سے مذمت ہوتی اور بین الاقوامی نوعیت کی ٹریبونل بنانے کے لئے آوازیں اٹھتیں۔ یہاں للینس گرین ووڈ ایم پی نے مداخلت کی اور کہا۔ پیلٹ گنز پر مکمل پابندی ہونی چاہئے اور ان کو ممنوع قرار دیا جانا چاہئے۔ ان سے انسانوں کے جسمانی نقصان اور اندھا ہونے کے واقعات لرزہ خیز ہیں۔ نصرت غنی ایم پی۔ کشمیر میں حالیہ بدامنی اور شدید تشدد کے دوران ہزاروں کشمیری مارے گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ آج بھی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ گولیاں برسائی جا رہی ہیں، کشمیر کے بارہ ملین انسانوں پر قیامت برپا ہے۔ یو این او سیاسی طور پر یہ مسئلہ از خود حل کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہماری تہذیب اور تاریخ پر سیاہ دھبہ ہے۔ اب کشمیریوں پر تشدد برداشت سے باہر ہوچکا ہے۔ یو این او کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے زور دیا ہے اور تجویز پیش کی ہے کہ ایک آزاد غیر جانبدار اور بین الاقوامی وفد کشمیر کے دونوں اطراف بھیجا جائے تاکہ پورے حالات معلوم کرکے مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہوسکے لیکن یہ تجویز بھی ہندوستان نے مسترد کردی ہے۔ یون این او کو بھی تھوڑی انکساری کا اظہار کرکے یہ بتانا چاہئے کہ انہوں نے اپنی پاس کی ہوئی قراردادوں سے کتنی وفاداری کی۔ برٹش پرائم منسٹر نے بھارت کا دورہ کیا۔ کیا منسٹر صاحب ہمیں مطلع کریں گے کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں کیا گفت و شنید کی۔ پیلٹ گنز کا استعمال بند کیا جائے۔ یہ خطرناک ہتھیار ہے، جس کا کوئی مخصوص نشانہ نہیں ہوتا۔ پیلٹ کے پھیلائو سے اردگرد کے لوگ زخمی ہوتے ہیں اور چہرہ مسخ ہوتا ہے، لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔ پیلٹ گنز کے چھروں کا پھیلائو چھ فٹ تک جاتا ہے، ان کا صحیح نشانہ نہیں ہوتا یہ اپنے اردگرد معصوم لوگوں کو لپیٹ میں لے لیتا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ کیا منسٹر صاحب اپنے ہم منصب ہندوستان سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ پیلٹ گنز استعمال کرنے کے کیا مقاصد ہیں ؟ مجھے کچھ نظر نہیں آتا کہ یہ کیوں استعمال ہو رہی ہیں۔ کیا آپ یہ اتفاق کریں گے کہ لوگوں کے ہجوم میں پیلٹ گنز کا استعمال جرم ہے ؟ کیا منسٹر صاحب ہندوستان پر یہ پریشر ڈالیں گے کہ وہ ان کے استعمال کا جواز پیش کرسکیں۔ دنیا کا کوئی جمہوری ملک اپنے لوگوں پر ایسے ہتھیار استعمال نہیں کرتا۔ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں میں نے بیان کی ہیں یہ یو این او کی توجہ کے لئے کافی ہیں کہ وہ کشمیر کے حالات کو سمجھنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کی رسائی حاصل کرسکیں، اسی طرح کی خلاف ورزیاں یو این او کے مبصرین کی مداخلت کے بغیر بند نہیں ہوں گی۔ ان کی پوری طرح تفتیش کی جائے۔ اگر یو این او ’’دینا اعلامہ‘‘ کو سنجیدگی سے دیکھتی ہے تو یو این او کو از خود نوٹس لینا ہوگا اور مقبوضہ کشمیر جا کر خود جائزہ لینا ہوگا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں نیوکلیئر ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ اس تنازع کے خطرات مقامی نوعیت کے کم ہیں اور گلوبل نوعیت کے زیادہ ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کی مضبوط ترین فوجوں میں سے ایک فوج ہے۔ یہ ریجنل تنازع نہیں ہے، یہ تنازع ہم سب کو لپیٹ میں لے سکتا ہے، اس لئے دنیا کی بڑی طاقتوں کو مل کر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف توجہ دینی چاہئے، ہمیں یو این او کی مدد کرنی چاہئے۔ مسٹروار نیدرہ شرما ایم پی نے ہندوستان کی طرح ہٹ دھرمی کرتے ہوئے سب سپیکرز کی تقاریر کو سنی سنائی باتوں کا مجموعہ قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ان باتوں میں تسلسل نہیں ہے یہ کہ کشمیر میں اس طرح کے حالات نہیں جس طرح یہاں بیان کئے جا رہے ہیں، میں ہندوستانی ہوں، وہاں پڑھا ہوں اور کشمیر میں کئی بار گیا ہوں، میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی جہاں کہیں بھی ہو مخالفت کرتا ہوں، کشمیر میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ، یہ باتیں سچ نہیں ہیں جو لوگ کشمیر جانا چاہتے ہیں ان کو سب سے پہلے ہندوستان کے خلاف تعصب سے پاک ہونا چاہئے۔ کوئی ملک ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں جانے کی اجازت نہیں دیتا جو اس پر تعصب سے تنقید کرتے ہوں جو سوالات ہم کر رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں جو کچھ کشمیر کے حالات پر کہا جا رہا ہے وہ سچ نہیں ہے۔ مسٹر شرما نے کہا کہ پاکستان دنیا کا ایک بڑا دہشت گردوں کا مددگار ملک ہے اور کئی دفعہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں نے ہندوستان پر حملے کئے ہیں اور کشمیر کے اندر بھی داخل ہوتے ہیں۔ یہاں رابرٹ چلیسلو ایم پی نے مسٹر شرکا کو روکا اور کہا کہ ’’میں کولمبین‘‘ حکومت پر بار بار تنقید کرتا ہوں لیکن وہ مجھے اپنے ملک میں جانے سے نہیں روکتے، وہاں پہنچ کر بھی ان پر تنقید کرتا ہوں، سپیکر نے مسٹر شرما کو روک کر کہا کہ آٹھ منٹ کی پابندی ہے آپ نے گیارہ منٹ لگا لئے ہیں لیکن پھر بھی مسٹر شرما ہندوستان کی وکالت کرتا رہا اور کشمیر کو اٹوٹ انگ ثابت کرتا رہا اور انسانی حقوق کی پامالی کو امن و امان قائم رکھنے کے لئے حفاظتی اقدامات ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ سٹیو بیکر ایم پی نے کہا میں اس موشن کے حق میں ہوں، میں مسٹر نٹال کو مبارک باد دیتا ہوں جس نے اس موش کے لئے وقت حاصل کیا، مجھے فخر ہے کہ ہم اس بحث کا آغاز کر رہے ہیں میں نے 15ستمبر 2014کو جو کشمیر پر پوزیشن تھی اسی طرح آج بھی اس موشن کے حق میں ہوں۔ یوکے، کے کشمیری شہریوں پر فخر ہے اور خصوصاً وہ جو وائی کمب میں رہتے ہیں۔ انہوں نے انتہائی بردباری اور احتیاط کے ساتھ کشمیر ایشو کو زندہ رکھا ہوا ہے باوجود اس کے کہ ان کے راستے میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ میں تین نقاط پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات مسئلہ کشمیر کے ناحل ہونے کی نوعیت، دوسری بات ہمارے اپنے ریفرنڈم سے حاصل ہونے والی سبق آموز باتیںاور تیسری بات یہ کہ ہم کس طرح مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کی کافی عرصہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر دو آزاد ممالک ہندوستان اور پاکستان کو خود آپس میں مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے۔ فارن آفس میں اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے، یہ انتہائی افسوس ناک رویہ ہے، ہم نے یوکے میں حق خودارادیت کا خود تجربہ کیا ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں جو ممکن نہ ہو، اس لئے فارن آفس کو جاننا چاہئے کہ حق خودارادیت کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کو اکیسویں صدی میں کامیابی سے ہمکنار نہ کرایا جاسکتا ہو۔ حکومت کو اپنی موجودی پالیسی کو ترک کرنا چاہئے ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان ہزاروں حلقہ انتخابات کے لوگوں کی نمائندگی کریں جن کے خاندانوں کا تعلق ہندوستان اور پاکستان اور کشمیر سے ہے وہ اپنی آواز ہم تک پہنچانے کے مستحق ہیں ہمیں اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ یہ تنازع ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریفرنڈم میں ہم نے یوکے میں جو نتائج حاصل کئے ہیں کشمیر کے ریفرنڈم میں بھی اس قسم کے ایشوز پیدا ہوسکتے ہیں جو سبق آموز ہیں۔ ورنر کوکر۔ مداخلت کرکے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے۔ سپیکر میں کشمیریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس بات پر توجہ دیں کہ ریفرنڈم کے نتیجے پر تمام فریقین متفق ہوں گے ؟ ان کے کیا تاثرات ہوں گے ؟ کیا وہ اس کے نتیجہ کو صحیح حتمی نتیجہ مانیں گے ؟ کیونکہ الزامات اور مخالف الزامات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اگر کشمیر پر دکھائے گئے مظالم کی ویڈیو سچی ہیں تو پوری دنیا کو اس کو سنجیدگی سے دھیان دینا چاہئے۔ اگر یہ ظلم ہو رہا ہے تو دنیا اور برطانیہ کشمیر کے ایشو سے الگ تھلک نہیں رہ سکتے۔ سٹار کریسی میں سمجھتی ہوں کہ فارن آفس والے کہتے ہیں کہ ایشو ناقابل حل ہے اور مشکل ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے الزامات کا ایک تھوڑا سا حصہ بھی درست ہے تو پھر کشمیر ایشو پوری دنیا کے لئے انتہائی اہم تنازع ہے۔ شبانہ محمود، میری فیملی کے کشمیر کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ڈیوڈ نٹال نے پس منظر بیان کردیا ہے یہ دونوں ممالک نیو کلیئر ہتھیاروں سے مسلح ہیں، لمبے عرصہ سے تنازع کشمیر چلا آ رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ برطانیہ میں کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ ہمارا ملک اس مسئلے پر توجہ نہیں دے رہا ہے میں ان تمام لوگوں کی ممنون ہوں جنہوں نے کشمیر کے مسئلہ کو اٹھایا اور حکومت کو اس مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دلائی، مسئلہ کشمیر میں تشدد کی وجہ سے اس مسئلہ کے حل کی ضرورت بڑھ گئی ہے، ہم پوری دنیا کی بے حسی کو دیکھ رہے ہیں جو ناقابل قبول ہے۔ یو این او کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کرانے سے کوتاہی کی جا رہی ہے۔ کشمیریوں کی حق خودارادیت کے لئے چلائی جانے والی ولولہ انگیز تحریک کو کچلنے کے لئے ہندوستان کی طرف ان پر جسمانی تشدد اور ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں میں مسٹر شرما ایم کے موقف اور دلائل کو ممل طور پر مسترد کرتی ہوں۔ کشمیریوں نے ظلم و بربریت سے تنگ آ کر اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس کے جواب میں ہندوستان نے نہتے کشمیریوں پر بے رحمانہ تشدد کیا جو بالکل قابل قبول نہیں ہے، کشمیریوں پر ہندوستانی فوج کے مظالم کی دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے تصدیق کی ہے جن میں ہیومن رائٹس واچ بھی شامل ہے۔ جس نے 2017کی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ہندوستانی فوج نے بے رحمانہ تشدد کیا ہے، غیر قانونی طور پر لوگ قتل ہو رہے ہیں اور اجتماعی آبروریزی کے واقعات عام ہیں، یہ سب ناقابل قبول ہے، ہندوستان کو اس کا جواب دینا ہوگا رول آف لاء کی عزت ہونی چاہئے صرف انتخابات کرانا ہی جمہوریت نہیں ہے۔ پیلٹ گنز کا استعمال انتہائی بے رحمانہ طاقت کا مظاہرہ ہے، پیلٹ گنز کے زخم چہرے کو مسخ کرتے ہیں، منہ کو ہمیشہ کے لئے داغدار کرتے ہیں اور یہ ہندوستانی بربریت کے نشانات ہیں۔ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے لیکن کشمیریوں کی فریاد کی شنوائی نہیں ہوتی۔ اجتماعی قبور، اجتماعی آبروریزی، سینکڑوں اشخاص کی گمشدگی کے انکشافات کے بعد بھی یو این او کے نمائندے تفتیش کے لئے مقبوضہ کشمیر میں داخل نہ ہوسکے۔ کشمیریوں کے لئے اگر کوئی امید کا راستہ نہیں تو وہ لامحالہ اس ظلم کے خلاف بار بار اٹھیں گے، یہ سب کچھ دیکھ کر ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ برٹش ایمپائر کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، ہمارا بولنا فرض ہے، دونوں ممالک کے درمیان گفت و شنید لازمی ہے ہمیں پرام منسٹر کی طرف سے جواب چاہئے، برٹش گورنمنٹ کو کشمیر ایشو کو یو این او (جاری ہے)



.
تازہ ترین