• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم کو کم سے کم یہی لب و لہجہ اپنانا چاہئے تھا جو اپنایا گیا ۔’’دہشت گردی کے جواب میں فوری بے رحم آپریشن واحد آپشن ہے‘‘۔ لیکن ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کو مزید ریفائن اور تیز دھار کر کے اس پر بھرپور جارحیت کے ساتھ عملدرآمد بھی اس قدر ضروری ہے کیونکہ یہ ایک مرحلہ وار اور کثیر الجہات جنگ ہے جسے ہارنا افورڈ ہی نہیں کیا جاسکتا۔دوسری خبر یہ کہ ’’سانحہ لاہور کی نشاندہی، کئی افغان گرفتار‘‘ اس میں وہ کچھ تلاش کرنے کی کوشش کیجئے جو میں لکھ نہیں سکتا سوائے شمال مغربی صوبہ سرحد کی اس کہاوت کے کہ ’’افغانستان آج اس لئے غریب ہے کیونکہ 200 برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا اور وہ برصغیر پر حملہ آور ہو کر غارت گری نہیں کر پایا‘‘۔اب چلتے ہیں ایک محقق اور عہد حاضر کے لاجواب قصہ گو عبدالمجید شیخ کی طرف جن کی لکھی اس سچی تاریخی کہانی میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں، اگر کوئی سیکھنا چاہے۔’’جب کابل کا خلی خان، عرف عام میں نادر شاہ، مئی 1738 میں لاہور پر حملہ آور ہوا تو اس نے سو دن سے بھی کم مدت میں دو لاکھ سے زیادہ افراد کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ ایسا ذبیحہ جس کی برصغیر کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کے مرتکب کون تھے؟ اس کے فارسی بولنے والے تاجک، قزلباش قازق اور جنوبی قفقازی جارجیائی۔جب نادر شاہ وسط فروری 1738 میں لاہور سے دہلی روانہ ہوا تو اس نے قسم کھائی کہ وہ پنجاب کے عوام کو وہ سبق سکھائے گا کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی کبھی بھول نہ پائیں گی (افسوس آج کسی کو یاد ہی کچھ نہیں)۔ اس کو روکنے والا پہلا شخص محمد شاہ تھا جس نے کرنال کے نزدیک ایک جنگ میں جنونی نادر شاہ کو اپنی دو لاکھ نفری والی فوج کو لڑاتے دیکھا۔ سینکڑوں قیدیوں کو ذبح کر ڈالا گیا اور ان کے سروں کو چھکڑوں پر لاد کر پنجاب کے دیہاتوں میں چکر لگوائے گئے۔ ایسے سو سے زیادہ چھکڑے لاہور شہر کی بیرونی دیواروں کے آگے کھڑے کردیئے گئے۔ حکم تھا کہ کٹے ہوئے سروں کو دفنایا نہ جائے تاکہ دہلی سے واپسی پر شہر کے لوگ اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔ شالامار باغ سے بادامی باغ تک جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف یہ چھکڑے کھڑے کردیئے گئے۔ آج بھی اندرون شہر لاہور کے طویل العمر لوگ اس دور کو ’’نادر شاہ دا سکہ‘‘ کہتے ہیں۔جب کابل کا خون کا پیاسا نادر شاہ 8 مارچ 1738 کو دہلی پر حملہ آور ہوا تو دہلی کی جامع مسجد کے بڑے گنبد پر چڑھ گیا اور اپنی تلوار ہوا میں بلند کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ جب تک وہ تلوار کو واپس نیام میں نہ رکھ لے، قتل عام جاری رہے (یاد رہے آج بھی یہاں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے) جب ایک لاکھ سے زیادہ انسان ذبح کیے جا چکےتو بادشاہ کے مصاحبوں میں سے ایک ذی عقل بادشاہ کی قدم بوسی کرتے ہوئے معافی کا طلبگار ہوا۔ شاہ نے تلوار نیام میں رکھتے ہوئے کہا ’’میرا خون اب بھی جوش مار رہا ہے کیونکہ میری پیاس ابھی بجھی نہیں‘‘۔پورے دو ماہ تک نادر شاہ نے بیدردی سے خود کو مستحکم کیا اور جس کسی نے اس کے خلاف زبان کھولی، قتل کردیا گیا۔ پورا ملک سکتے میں تھا۔ پھر لوٹ مار شروع ہوئی جو اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھی تھی۔ مئی 1738 میں اس کی افواج کی دہلی سے بتدریج واپسی شروع ہوئی۔ وہ اپنے ہمراہ اس قدر زیادہ ’’مال غنیمت‘‘ لایا کہ آج بھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ایک برطانوی مورخ کے تخمینہ کے مطابق نادر شاہ اپنے ہمراہ آٹھ کروڑ ستر لاکھ سٹرلنگ نقد لوٹ کر لایا جو موجودہ دور کے حساب سے دس ارب برطانوی پائونڈ کے برابر ہے۔ اس کے سالاروں سپاہیوں نے الگ ایک کروڑ بیس لاکھ سٹرلنگ لوٹے جو موجودہ دور کے حساب سے تقریباً دو ارب برطانوی پائونڈ کے برابر بنتے ہیں اس کے علاوہ ایک ہزار ہاتھی، سات ہزار عمدہ نسل کے گھوڑے، دس ہزار اونٹ، دو سو معمار، تین سو پتھر تراش اور دو سو بڑھئی بھی اٹھا لئے۔ یہ تمام مال اسباب مئی 1738دہلی سے لاہور پہنچ گیا اور یوں نادر شاہ جب تک لاہور مقیم رہا، لاہور دنیا کا امیر ترین شہر بنا رہا۔لاہور میں نادر شاہ نے اپنے پیچھے مستقلاً بہت سے منتظمین چھوڑے جن میں سپاہی بھی شامل تھے۔ نمایاں ترین قزلباش قبیلہ تھا۔ نادر شاہ کی بدولت، پھر سکھ حکمرانوں کی مہربانی اور ان کے بعد انگریزوں کے ساتھ وفاداری کے عوض آج بھی لاہور اور اس کے گردونواح میں بہت سی اراضی و جائیداد ان کی ’’ملکیت‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ مئی 1738 اپنے وطن کابل روانہ ہوا تو اس کو دریائے راوی کی طغیانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت سے دریائے راوی میں سونے کے سکے اور دیگر خزانوں کی موجودگی کی افواہیں لاہور کی لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔لیکن نادر شاہ کی بربریت اور درندگی سے پنجابی وطن پرستی کا ظہور ہوگیا جس نے بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی منفرد ذات میں بلندیوں کو چھو لیا۔ ایشیا کی بہترین فوج پنجاب میں کھڑ ی کردی کہ درندگی کا جواب صرف درندگی سے ہی دیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد برسہا برس امن، چین، انصاف کا دور دورہ رہا کیونکہ آخر کار مہاراجہ کو بھی اندازہ اور احساس ہوگیا تھا کہ صرف سیکولر حکمت عملی سے ہی کام چلایا جاسکتا ہے۔ بعدازاں ایک طرح سے انگریزوں کیلئے بھی درندگی اور قتل و غارت کے بعد یہی انداز فکر و عمل سچ ثابت ہوا۔نادر شاہ، مہاراجہ رنجیت سنگھ اور انگریز راج کا موازنہ بہت دلچسپ ہے۔ کابل سے آنے والے تمام لٹیروں کی طرح ان کا مفاد فقط لوٹ مار میں تھا جس کیلئے انہیں قتل و غارت اور عصمت دری تک جانا پڑا۔ سکھوں نے لٹیروں کولوٹا اور لاہور فتح کرنے کیلئے اپنی فوج کھڑی کرلی لیکن بالآخر کیونکہ ان کا تعلق اسی سرزمین میں سے تھا۔ انہیں احساس ہوگیا کہ صرف اور صرف انصاف سے ہی حکومت دراز ہوسکتی ہے‘‘۔قارئین!سانحہ لاہور مجھے خونخوار نادر شاہ تک لے گیا۔ کوئی چاہے تواس سے پیچھے اور پھر اس سے بھی پیچھے جا کر معاملات کو سمجھ سکتا ہے۔ وہ وقت گئے۔ اس طرف کی کوئی ریگولر فوج توآج پاک فوج کے سامنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اب زیادہ سے زیادہ اسی قسم کی بزدلانہ کارروائیاں ہی ہوسکتی ہیں۔وزیراعظم کا تازہ بیان یاد آتا ہے کہ ’’فوری اور بے رحم آپریشن ہی واحد آپشن ہے‘‘ اور شمال مغربی صوبہ سرحد کی وہ بلیغ کہاوت یاد آتی ہے کہ ’’افغانستان آج اس لئے غریب ہے کیونکہ 200برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا اور وہ برصغیر پر حملہ آور ہو کر غارت گری نہیں کر پایا‘‘۔تاریخ میں غارت گر اور غارت گری چہرے بدلتی رہتی ہے لیکن اس کے بہانے کم و بیش وہی رہتے ہیں اور اب تو اس خونی کھیل میں بھارت فیکٹر بھی شامل بلکہ پیش پیش ہے۔

.
تازہ ترین