• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض اوقات چھوٹے چھوٹے واقعات دل پہ اتنے گہرے زخم لگادیتے ہیں کہ انہیں بھلانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے ایک فوجی افسر اور شہید دوست کا جنازہ تھا۔ شہید کے والدین اور بیوی صبر و استقامت کا مظاہرہ کررہے تھے لیکن جب ہم کمرے سے شہید کا جنازہ اٹھانے گئے اور فضا کلمہ طیبہ کے ورد سے معطر ہوگئی تو یوں لگا جیسے شہید کے والدین ا ور بیوہ کے صبر کے پیمانے ٹوٹ گئے ہیں۔ کئی برس گزر چکے لیکن میرے کانوں میں آج بھی شہید کی بیوہ کا آنسوئوں میں ڈوبا ہوا بین سنائی دے رہا ہے۔ رشتوں کے منقطع ہونے، عمر بھر کے وچھوڑے اور ایک ختم نہ ہونے والی فراق کی طویل رات انسان کو توڑ پھوڑ دیتی ہے اور اس توڑ پھوڑ سے نکلنے والی آواز دل میں گویا سوراخ سا کرجاتی ہے۔ باوردی فوجیوں نے جنازہ اٹھایا اور ہم شہید کے پلنگ کو ہاتھ لگانے کے لئے آگے بڑھے تو اس کی بیوہ نے غم سے نڈھال ہو کر آنسوئوں میں غرق ا ٓواز سے مرحوم کا نام لے کر اسے پکارا اور پوچھا’’مجھے کس کے حوالے کئے جارہے ہو؟ تم نے جاتے ہوئے سوچا میرا کیا بنے گا؟ تمہارے معصوم بچوں کا کیا ہوگا‘‘۔ بیوہ کا اظہار غم ناقابل برداشت تھا۔ جس جس کان میں یہ آواز پڑی اس کی آنکھیں ندی کی مانند بہنے لگیں۔ ناگہانی موت خواہ کیسی بھی ہو غم کا پہاڑ بن کر گرتی ہے اور انسان کو ریزہ ریزہ کرجاتی ہے۔ حکمرانوں کی تسلیاں اور اعلانات کہ پوری قوم شہداء کے خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے رشتے داروں، عزیز و اقارب اور دوستوں کے پرسے محض چند روزہ رسومات ہوتی ہیں با،لآخر صدمے اور غم کا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
ایسا حوصلہ بڑھانے اور دعوئوں کا ڈھول بجانے کا کیا فائدہ جو محض سیاسی بیانات کی حیثیت رکھتے ہوں، اگر ہم جیسے قلم کاروں کو علم ہے کہ ابھی ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں ختم ہوگی تو پھر حکمران ہر روز عوام کو طفل تسلیوں سے کیوں بہلاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہماری قیادت کا ایک ہی نعرہ تھا کہ ہم نے ملک سے دہشت گردی ختم کردی اور اب ایک سال کے اندر اندر لوڈ شیڈنگ بھی ختم کردیں گے۔ اخبارات سے لے کر ٹی وی چینلوں تک ہر طرف ایک ہی حکومتی کارنامے کی گونج سنائی دیتی تھی۔ لاہور، پشاور، مہمند ایجنسی، کوئٹہ وغیرہ وغیرہ میں دہشت گردی کے تازہ واقعات نے نہ صرف ان دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے بلکہ ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ حکومتی حکمت عملی اور کارکردگی میں بنیادی نقائص موجود ہیں جنہیں رفع کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ علمی اور کتابی مباحث اور تصوراتی و تزویراتی تنقیدوں سے قطع نظر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو آسانی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان حالات میں فی الحال دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہیں۔ بلاشبہ جنرل راحیل شریف کا بار بار یہ گلہ کرنا برمحل تھا کہ فوج نے تو اپنا کام کردیا ہے اور خلوص نیت سے کررہی ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان کا وہ حصہ تشنہ تکمیل ہے جس پر سیاسی حکومتوں کو عمل کرنا تھا۔ نیکٹا کو فعال بنانا، مدارس کی رجسٹریشن، دہشت گردوں کے خلاف کومبنگ آپریشن، ہندوستان و افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ، دہشت گردی کی حامی تنظیموں کی بندش، دہشت گردی پر اکسانے والے مذہبی راہنمائوں کو پابند سلاسل کرنا، دہشت گردی کے سہولت کاروں کا کھوج لگا کر ان کا قلع قمع کرنا، دہشت گردوں کی فنڈنگ کے راستے بند کرکے ان کے مالی سوتے خشک کرنا وغیرہ پر صحیح معنوں میں عمل نہیں ہوا۔ سچ یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف فعال ہیں بلکہ ان میں سے کچھ داعش سے بھی رشتے جوڑ چکی ہیں۔ حقائق سے آنکھیں چرانا نہ بہادری ہے اور نہ ہی مسئلے کا علاج ہے۔ حکومت پنجاب کی کارکردگی پر قصیدوں کے پھول نچھاور کرنے والے ذرا سوچیں کہ کس طرح خودکش حملہ آور اپنے ساتھیوں کے ساتھ طویل سفر کرکے لاہور پہنچا، انہیں کس نے پناہ دی اور وہ کس طرح شاہراہ قائد اعظم پر چہل قدمی کرتے ہوئے احتجاجی جلوس تک پہنچے۔ حکومتی ایجنسیاں اور پولیس کہاں تھی، انہیں طویل مسافت کے دوران کہیں بھی چیک نہ کیا گیا جبکہ لاہور میں داخل ہونے والے تمام راستوں پر سرچ آپریشن کیا جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے وزراء کو یہ اعلان کرتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی کہ اس دہشت گردی کی پہلے سے اطلاع تھی حتیٰ کہ خفیہ ایجنسی نے اطلاع دیتے ہوئے جائے واردات کی نشاندہی بھی کردی تھی۔ افغانستان کے نائب سفیر کو بلانے کا کیا فائدہ؟ کیا کبھی ہمارے حکمرانوں نے تجزیہ کیا کہ افغانستان کو پاکستان سے کیا شکایات ہیں اور وہ اپنے ملک میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان کو کیوں دیتے ہیں؟ ہندوستان، امریکہ اور افغانستان اس حوالے سے ہم آواز کیوں ہیں؟ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا کہ ہم افغانستان کو الاحرار پر قابو پانے کا کہیں اور افغانستان حقانی نیٹ ورک کا رونا روئے۔ اب تو ہم عالمی سطح پر اس قدر مطعون ہوچکے ہیں کہ دنیا پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاتی ہے۔ عسکری اور سیاسی قیادتوں کی باہم بداعتمادی کی سزا قوم بھگت رہی ہے۔ ان حالات میں دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں اور ہماری قیادتوں کی نالائقیوں کا نوحہ ہیں۔ اس پس منظر میں بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات پر بھی زد پڑتی رہے گی اور سی پیک کی متوقع کامیابیوں پر بھی خطرات کے بادل لہراتے رہیں گے۔
جاتے جاتے ایک درخواست کرنے کی ا جازت دیجئے۔اس پر طبقاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ مفادات کے اسیر ایثار کرنا پسند نہیں کرتے۔ فوج نے اپنا ایک نظام بنا رکھا ہے جس کے تحت شہداء کے خاندانوں کو مکانات یا فلیٹس الاٹ کئے جاتے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ بیوگان کو معقول پنشن اور ریگولر مالی امداد بھی دی جاتی ہے یا نہیں اور زیر تعلیم بچوں کی مکمل کفالت کی جاتی ہے یا نہیں؟ عرض ہے کہ شہیدوں کے خاندانوں کو اراضی الاٹ کرنی چاہئے تاکہ ان کے لئے مستقل ذریعہ آمدنی کا انتظام ہو۔ جرنیلوں کو ڈی ایچ ایز میں سرکاری طور پر کئی رہائشی اور کمرشل پلاٹ ملتے ہیں جن کی مالیت اربوں روپوں میں ہوتی ہے۔ انہیں پنشن بھی اچھی خاصی ملتی ہے اور بے شمار سہولتیں میسر آتی ہیں۔ میری گزارش ہے کہ جونیئر شہید افسران پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی شہداء اور دہشت گردی میں Disable ہونے والے افسران کو گھر الاٹ کرنے کے علاوہ ماہانہ معقول آمدنی کا بھی بندوبست کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے شہریوں کے لئے بھی ویلفیئر اسکیمیں بنانے کی ضرورت ہے۔
آخری گزارش بلکہ فریاد ہے کہ حکمران اور ان کے حواری دہشت گردی کے خاتمے کی بڑھکیں مارنی چھوڑ دیں اور کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ زبانی دعوے عمل کا نعم البدل نہیں ہوتے اور ہاں نوٹ کرلیں کہ خاکم بدہن اگر ہماری حکومتوں نے کارکردگی بہتر نہ بنائی تو اس سال دہشت گردی گزشتہ سال سے بھی بدتر ہوگی۔

.
تازہ ترین