• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی یقین کرے گا کہ مسلم ملک کویت میں پاکستانیوں کا داخلہ بند ہے؟ پاکستانی پاسپورٹ پر کسی کو وہاں کا ویزا نہیں مل سکتا۔ اس ہرے پاسپورٹ پر کسی پاکستانی کو کویت جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کہتے ہیں یہ پابندی کوئی آج کی نہیں، آٹھ نوسال سے لگی ہے۔ سبب؟ شیخ کی خفگی کو اتنے ہی برس ہورہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ان کی راہ میں آنکھیں اور اسی قسم کی ہر شے بچھائے جاتے ہیں اور ایک وہ ہیں کہ ہماری کوئی ادا انہیں بھاتی نہیں۔ میں جو پچھلے دنوں کویت پہنچا تو میرے ہاتھ میں ملکہء برطانیہ کا عطا کردہ پاسپورٹ تھا اور دوسرا اعزاز جو مجھے حاصل تھا وہ یہ کہ میں غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوا تھا۔ اس وقت انگریزوں کا راج تھا مگر تھا تو انڈیا، مجھے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ کویت کا قصہ یہ ہے کہ وہاںنادار اور بے آسرا بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی ایک عالمی فلاحی تنظیم ایس او ایس کے احباب ہر سال اپنی ایک تقریب مناتے ہیں جس میں کسی شخصیت کو مہمان خصوصی کے طور پر بلاتے ہیں۔ خلیج کے ملکوں کے پاس تو اس کا آسان حل ہے۔ کسی نام ور شاعر کو بلا لیتے ہیں جن کی پاکستان میں کمی نہیں اور جنہیں عرب ملکوں میں اھلاً و سہلاً کہا جاتا ہے۔ کویت والوں کو ویزاکے خیال سے دشواری ہوئی۔ معاً ان کا خیال میری طرف گیا اور اس طرح مجھے وہ سعادت نصیب ہوئی جس کا میں متمنّی تھا۔ میں نے اپنے کویتی سامعین کو دیکھا، خود کو ان کے درمیان پایا اوران کی محبتیں سمیٹیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا، یاد رکھا اور اس پرانی رفاقت کی یادیں تازہ کیں۔ خود پاکستان میں جو جوان مجھے ملتے ہیں انہیں ایک بات تو اچھی طرح یاد ہے کہ جب ان کے بزرگ ایک غیر ملکی ریڈیو پر اپنے ملک کی خبریں سنا کرتے تھے اس وقت گھر کے بچّوں کو خاموش کردیا جاتا تھا۔ وہ جوان جب اقرار کرتے ہیں کہ کم عمری ہی میں میری آواز ان کے کانوں میں پڑنے لگی تھی تو میں نہال ہوتا ہوں کہ میرے نزدیک یہ بھی ایک چھوٹی سی شاباشی ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے دل دکھتا ہے کہ کویت میں پاکستانی برادری سکڑتی جارہی ہے۔ اب تو وہاں جاکر یوں لگتا ہے کہ جنوبی ہندوستان آگئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پورے شہر میں خاکروبوں کی وردی پہنے جو بے شمار لوگ کام کرتے نظر آتے ہیںان میں زیادہ تر بھارت کے باشندے ہیں۔ یہ کام مقامی لوگ نہیں کیا کرتے۔ ہم گرینڈ پلازہ قسم کے مال میں عربی کھانا کھانے گئے تو دیکھا کہ وہاں کا سارا عملہ جنوبی بھارت کا تھا۔ سب انگریزی بولتے ہیں اور اب تو عرب بھی انگلش بولنے لگے ہیں۔ دنیا بھر کے عالیشان اسٹور اپنا مال اسباب لے کر کویت آگئے ہیں اور اتنی شاندار دکانیں کھولی ہیں کہ ان کے آگے پیرس اور لندن کے اسٹور بھی شرما جائیں۔ جدید لباس اور آرائش حسن کی مشہور دکانیں وہاں دونوں ہاتھوں سے کما رہی ہیں کیونکہ عرب خواتین کے پاس اس کام کے لئے فرصت ہی فرصت ہے۔ شہر میں اتنے بڑے بڑے پلازہ ہیں کہ انسان ان کے اندر جا کر کھوجائے تو نکلنے کا راستہ نہ ملے۔ اب رہ گئے گاہک اور خریدار تو ان کے کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ سنا ہے کہ چھٹی کے دن اور رمضان کے مہینے میں تو وہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ غریب غربا وہاں ہوں گے تو نظر نہیں آتے۔ میں خالص عرب طرز کے بازار دیکھنے گیا تو وہاں کچھ نسبتاً غریب گاہک نظر آئے مگر پتہ چلا کہ وہ بھی اپنی کاروں میں آئے تھے۔ ہم گھر کے بچوں کے ساتھ اپنی کار میںجارہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں عام لوگوں کے لئے بسیں چلتی ہیں؟جواب میں خاموشی رہی، اتنے میں قریب سے ایک بس گزری۔ بچّے چلّائے:وہ دیکھئے بس، وہ دیکھئے بس۔ بس نہ ہوئی، عجوبہ ہوگیا۔ لوگوں کا چلنا پھرنا، آنا جانا اور گھومنا پھرنا، سب کچھ کاروں سے ہے۔ ایک زمانے میں مشہور تھا کہ ان ملکوں میں پانی مہنگا اور پٹرول سستا ہے۔ میرے میزبان حنیف نے بتایا کہ جہاں تک ان کی یاداشت کا تعلق ہے، وہاں حال ہی میں پہلی بار پٹرول کی قیمت بڑھی ہے اور یہ کہ شاید پہلی بار عرب ملکوں نے قرضہ لیا ہے۔ مگر دولت کی وہ افراط ہے کہ خدا کی پناہ۔ پورا شہر کویت اونچی اونچی عمارتوں کا جنگل نظر آتا ہے جس کے اندر کاریں رینگ رہی ہیں۔ اور کاروں کی بھی یہ شان ہے کہ ہمارے ایک ڈاکٹر دوست نے جو ہڈیوں کے ماہر ہیںہمیں بتا یا کہ کاروں کے حادثوں میں ہاتھ پیر تڑوانے کے بعد جب اسپتا ل لائے جاتے ہیں تو بڑے فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ میں ایک سو ساٹھ کی رفتار سے جارہا تھا۔ حیرت ہے تمام عمر اونٹوں پر سفر کرنے والی قوم کے نیچے جب سے کار آئی ہے، اسے سرپٹ گھوڑوں کی طرح دوڑانے لگے ہیں۔
کویت میں کویتیوں کے لئے سب کچھ مفت ہے۔ دوا علاج، پڑھائی لکھائی اور سر کے اوپر چھت کا کوئی معاوضہ نہیں۔ تعلیم پانے کے لئے کچھ دینا نہیں پڑتا بلکہ یہ احسان کرنے والے کو ریاست ہی کچھ دیتی ہے۔ علم یا علاج کے لئے اگر ملک سے باہر جانا پڑے تو پاکستانی حکمرانوں کی طرح اس کا سارا خرچ سرکاری خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔ میں اپنے میزبان کے گھر میں برطانیہ کی عادت کے مطابق فالتو بجلیاں بجھاتا جارہا تھا، وہ بولے:فکر نہ کیجئے، یہاں بجلی کا بل نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کہ پانی کہاں سے آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا بناتے ہیں مگر یہ لوگ پانی بڑی بے دردی سے بہاتے ہیں۔ تیل کے کنوئوں سے گیس بھی کم ملتی ہے او ر باہر سے منگانی پڑتی ہے۔ وہ بھی فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں۔ قریب قریب ہر چیز باہر سے آتی ہے۔ وطن سے محبت بہت کرتے ہیں۔ فروری کا مہینہ ان کے جشن کامہینہ ہوتا ہے۔ اسی مہینے اپنا قومی دن مناتے ہیں اور اس مہینے صدام حسین کی قابض فوج سے آزادی کا دن منایا جاتا ہے۔ اسی لئے ہر طرف قومی پرچموں کی بہاردکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح جگہ جگہ اﷲ، رسول ؐکے مبارک نام پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں اور خوشی ہوتی ہے ورنہ جب یہاں فلم مغلِ اعظم نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی تو اس میں سے وسیلے کی مناجات نکال دی گئی تھی۔ خوشی ہے کہ سفینہ بھنور میں نہیں ہے ابھی۔

.
تازہ ترین