• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
٭کوالالمپور میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنے پے اسکیل نہ بڑھائے جانے پر اسپتالوں کو تالے لگا دیئے، احتجاج کے باعث کئی مریضوں نے سسک سسک کر دم توڑ دیا۔
٭تہران میں ادویات بنانے اور بیچنے والوں کی نمائندہ تنظیموں نے نئی قانون سازی کے خلاف ہڑتال کر دی۔ مریضوں کے لواحقین دن بھر ادویات خریدنے کے لئے مارے مارے پھرتے رہے۔
٭جکارتہ میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی نرسوں نے مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیدیا، شہر بھر میں بدترین ٹریفک جام، لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا۔
٭کولمبو میں کلرکوں کا اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج مظاہرہ، ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کر دیں، حکومت نے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دیدی۔
میں انٹرنیٹ پر بلا ناغہ لگ بھگ درجن عالمی اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں مگر محدب عدسہ لیکر ڈھونڈنے سے بھی اس طرز کی خبریں نہیں ملتیں۔ گاہے یہ خیال آتا ہے اور بہت ستاتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی اندھیر نگری کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہاں چور، ٹھگ، لٹیرے، منافع خور، ذخیرہ اندوز، جعلسازاور کام چور احتجاج کرنے کے جمہوری حقوق کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور حکومت بلیک میل ہو کر ان کے آگے جھک جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی دن جیب کُترے، ڈاکو، چور اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم میں ملوث افراد بھی اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے دھرنا دیکر بیٹھ جائیں کہ جب تک پولیس کو نکیل نہیں ڈالی جاتی اور ہمارے خلاف بنائے سخت قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا، ہم واپس نہیں جائیںگے۔ یوں توہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے مگر ادویات سازی و ادویات فروشی کے دھندے میں لوٹ مار دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ اندھیر نگری سے بھی آگے کی کوئی چیز ہے۔ دنیا بھر میں ڈاکٹر کے لکھے ہوئے نسخے پر تجویز کردہ دوائیں خریدی جا سکتی ہیں اور کوئی فرد معالج کی پرچی کے بغیر دوائی نہیں لے سکتا لیکن وطن عزیز میںعام میڈیکل اسٹور تو کیا بڑی فارمیسی چینز سے بھی ڈاکٹری نسخے کے بغیر ادویات یوں دستیاب ہیں جیسے چاکلیٹ، ٹافیاں اور بسکٹ۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں ڈگریاں اور لائسنس بھی کرائے پر دستیاب ہیں۔ چونکہ فارمیسی کرنے والوں کو میڈیکل اسٹور یا فارمیسی کھولنے کے لئے لائسنس مل جاتا ہے اس لئے یہ لوگ اضافی آمدن کے لئے کاغذ کے اس ٹکڑے کو رینٹ پر دے دیتے ہیں یوں کوئی ان پڑھ شخص فارمیسی کھول لیتا ہے۔ جب کوئی ڈرگ انسپکٹر معائنہ کرنے کے لئے آتا ہے تو لائسنس اس شخص کے نام سے ہی چسپاں کیا گیا ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فارماسسٹ نماز پڑھنے گئے ہیں بس آتے ہی ہونگے۔ ’’کرایہ دار‘‘ کے ٹیلی فون کرنے پر ـلائسنس ہولڈرتشریف لے آتے ہیں اور یوں معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔ لوگ ڈاکٹر کی فیس بچانے کے لئے میڈیکل اسٹور پر جاتے ہیں اور نزلہ، زکام، کھانسی، سر درد، بخار کی شکایت پر ـ’’فکسڈ ڈوز کمبی نیشن‘‘ لے آتے ہیں۔ لائسنس دیتے وقت ضابطہ اخلاق بھی بتایا جاتا ہے کہ کس قسم کی ادویات کو کتنے درجہ حرارت پر محفوظ کرنا ہے، صرف مستند، رجسٹرڈ اور معیاری ادویات ہی بیچنی ہیں مگر یہ باتیں محض قوانین کی کتابوں تک ہی محدود رہتی ہیں۔ غیر معیاری ادویات نہ صرف رکھی جاتی ہیں بلکہ خریداروں کو یہ کہہ کر ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ فلاں کمپنی کی دوائی دیدوں، وہی فارمولا ہے بس نام مختلف ہے۔ کیو نکہ ان ادویات کی فروخت میں بے تحاشا منافع ہوتا ہے۔ چند برس ہوتے ہیں، ایک میڈیکل جرنل میں رپورٹ شائع ہوئی کہ پاکستان بھر میں صرف 4فیصد میڈیکل اسٹور ایسے ہیں جو قواعد وضوابط کی پابندی کرتے ہیں۔
میڈیکل اسٹور اورفارمیسی چلانے والوں کی طرح ادویات بنانے والی فارما کمپنیاں بھی دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہیں۔ ادویات کی قیمتوں کے تعین میں ہیر پھیر کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی دوائی جو کئی فارما کمپنیاں مختلف ناموں سے بیچ رہی ہیں، ان کی قیمتوں میں انیس بیس نہیں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس حوالے سے تقریباً ایک سال پہلے میں تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں۔ غیر معیاری، ناقص اور جعلی ادویات کا یہ عالم ہے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والی 40فیصد ادویات جعلی ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ قومی اسمبلی میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ مارکیٹ میں بیچی جا رہی 40سے 50فیصد ادویات جعلی ہیں۔ اس چوربازاری اور جعلسازی سے نمٹنے کے لئے پنجاب اسمبلی نے 1976ء کے ڈرگ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے جعلی ادویات بنانے اور بیچنے والوں کی سزائیں بڑھائیں تو اس دھندے میں ملوث افراد کی 13نمائندہ تنظیموں نے احتجاج کا اعلان کردیا۔ لاہور میں خودکش حملے کے بعد بھی ان کٹھور دل افراد کا دل نہ پسیجا اور انہوں نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے ایک عہدیدار سے کسی ٹی وی چینل پر پوچھا گیا کہ کیا آپ جعلی اور ناقص ادویات کے حق میں ہیں؟انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا، نہیں ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ کسی میڈیکل اسٹور پر کوئی غیر معیاری دوائی پائی جائے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بجائے ہماری ایسوسی ایشن کو ریفر کیا جائے اور ہم خود فیصلہ کریں اس کا۔ بہت خوب، عدلیہ چاہتی ہے ججوں کے خلاف شکایت ہو تو وہ خود سنے، فوج کا موقف ہے کہ اس کے کسی فرد کا معاملہ ہو تو سول کورٹ کے تحت ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ وکلا کہتے ہیں کہ کالے کوٹ والے جو چاہے کریں ان کے خلاف قانون حرکت میں نہ آئے بلکہ بارکونسل کو شکایت کی جائے اور اب ادویات بنانے اور بیچنے والوں کا اصرار ہے کہ اپنی برادری کے بارے میں فیصلہ سازی کا حق انہیں سونپ دیا جائے۔ تو کیا ضرورت ہے ان عدالتوں اور نظام انصاف کی، سب اپنی اپنی عدالتیں لگائیں اور سانڈ بن جائیں۔
کالم لکھتے ہوئے خبر ملی کہ کئی دن غیرمتزلزل رہنے والی صوبائی حکومت نے آخر کار اس مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور تمام نمائندہ تنظیموں سے سمجھوتے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ حکومت نے پسپائی اختیار کیوں کی؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلا تو معلوم ہوا کہ خادم اعلیٰ کی بکل میں چور ہیں۔ ان کے ایک چہیتے وزیر جن کے پاس اطلاعات اورایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سمیت کئی محکموں کا چارج ہے، ان کی ناصرف اپنی ایک مبینہ فارما کمپنی ہے بلکہ وزیر موصوف کے کئی عزیز و اقارب بھی مبینہ طور پراس دھندے میں ہیں تو حکومت پیچھے کیسے نہ ہٹتی؟

.
تازہ ترین