• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس ہفتے کے دوران دہشت گردی کی لعنت نے ایک بار پھر بڑے زور شور سے ملک کے مختلف حصوں میں تباہی پھیلائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ برائی ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بڑا چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کب تک اس برائی کا مکمل طور پر ختم کیا جاسکے گا۔ ہمارے اداروں نے بڑی حد تک پاکستان کے اندر تو دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور جو بچے کچھے مجرم موجود ہیں ان کے ساتھ بخوبی نبٹا جارہاہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں یہ یا تو گرفتار کر لئے جائیں گے یا مار دیئے جائیں گے۔ تاہم دہشت گردی کی اصل جڑیں افغانستان میں ہیں جہاں سے یہ ساری تباہی پاکستان میں پھیلائی جارہی ہے۔ ہمارے لئے مصیبت یہ ہے کہ ہم افغان حکومت کو قائل نہیں کرسکتے کہ وہ ان کے ہاں موجود دہشت گردی کے اڈوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ کارروائی کرے۔ جو گروپ یعنی جماعت الاحرار پاکستان میں ہونیوالے تمام بڑے بڑے دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کر رہاہے وہ افغانستان سے آپریٹ کر رہاہے۔ یہ گروہ تمام کارروائیوں کی ذمہ داری بھی کھل کر قبول کرتا ہے یعنی وہ پاکستان کو چیلنج کرتا ہے کہ جو چاہے وہ کر لے یہ گروپ اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ اس کے اعلانات افغان حکومت کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور دوسرے بہت سے باخبر افراد کو رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ جو دہشت گرد افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں وہ وہاں کی حکومت کے نہ صرف مکمل طور پر علم میں ہیں بلکہ انہیں اس کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ ایک نہیں بلکہ کئی بار پاکستان افغانستان کو ان دہشت گردوں کے بارے میں مصدقہ ثبوت دے چکا ہے مگر افغان حکومت ان کے خلاف کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ وہ الٹا پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرتی رہتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ افغان حکومت فری ایجنٹ نہیں ہے بلکہ وہ جو کچھ کر رہی ہے بھارت کی ایما پر اور اس کی خوشنودی کے لئے کر رہی ہے۔ امریکہ جس کا افغانستان پر نائن الیون کے بعد مکمل طور پر قبضہ ہے کو بھی علم ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔
لاہور، پشاور اور مہمند ایجنسی میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے پیچھے افغانستان میں موجود دہشتگرد ہی ہیں مگر ان کے سہولت کار پاکستان میں تھے جن کی تلاش جاری ہے۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے لاہور میں ہونے والے واقعہ کے کچھ سہولت کار گرفتار کر لئے ہیں اور جلد ہی تمام ملزموں کو پکڑ لیا جائے گا۔ بلا شبہ پنجاب میں کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بڑی مستعدی سے کام کر رہاہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب اس نے کچھ دہشت گردوں کو نہ پکڑا ہو یا نہ مارا ہو۔ اسی طرح سندھ میں بھی سی ٹی ڈی بہت اچھا کام کر رہی ہے اور تیزی سے دہشت گردوں پر قابو پا رہی ہے۔ ان حالیہ واقعات میں غور طلب بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ کیا تھا۔ لاہور میں پولیس کے سینئر افسران کو نشانہ بنایا گیا۔ شہداء خصوصاً ڈی آئی جی مبین احمد اور ایس ایس پی زاہد گوندل نے شجاعت اور بہادری کی نئی داستان رقم کی۔ منصوبے کے مطابق اس خود کش حملہ آور نے اس روز کہیں نہ کہیں کسی بڑے حکومتی لیڈر یا اجتماع کو ہٹ کرنا تھا۔ دوا ساز کمپنیوں اور ڈرگ اسٹورز کے مالکان نے ایسا ایک اجتماع اسے فراہم کردیا جب وہ پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کر رہے تھے۔ وہ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ پنجاب حکومت نے جو ترامیم ڈرگ ایکٹ 1976میں کی ہیں ان کو واپس لیا جائے۔ ان کا احتجاج غیر اخلاقی اور ظالمانہ تھا کیونکہ وہ دراصل یہ چاہتے تھے کہ جعلی ادویات بنانے والوں کو سزا نہ دی جائے اور انہیں ایسی دوائیاں بیچنے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہئے۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ خود کش بمبار کا اصل ٹارگٹ تو وزیراعلیٰ شہبازشریف تھے مگر وہ اس دن اپنے شارع قائداعظم والے دفتر نہیں گئے کیونکہ دہشتگردی کے حملے کی کسی حد تک معلومات موجود تھیں۔ ایک اور وزیر کا کہنا تھاکہ وزیراعظم نوازشریف بھی ان دہشتگردوں کا ٹارگٹ تھے مگر وہ اس دن گورنر ہائوس لاہور میں اجلاس کی صدارت کے لئے نہیں گئے۔
اگرچہ پولیس،پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور پاکستان شاید دنیا میں واحد ملک ہے جہاں اتنے کم عرصے میں اتنی بڑی برائی پر کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جب تک افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے سہولت کار جو کہ پاکستان میں ہیں کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ برائی ملک کے مختلف حصوں میں اپنا کام دکھاتی رہے گی۔ ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی اس سلسلے میں گرفتار مجرمان ہوں ان کے ساتھ سخت ترین سلوک کیا جانا چاہئے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کا اس پر مکمل اتفاق رائے ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہئے۔ یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ سیاسی جماعتیں رضا مند ہو رہی ہیں کہ فوجی عدالتوں کو سویلین دہشتگردوں کا ٹرائل کرنے کی دوبارہ اجازت دی جائے تاکہ ایسے مجرموں کوجلد از جلد سزائیں ملیں اور وہ کیفر کردار کو پہنچیں۔ 2سال سے زائد عرصہ قبل آئین اور پاکستان آرمی ایکٹ میں ترامیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو یہ اختیار دیا گیا جو کہ اس سال جنوری میں ختم ہو گیا۔ اس عرصہ کے دوران فوجی عدالتوں نے بہت سے ’’جیٹ بلیک‘‘دہشت گردوں کو سزائے موت دی جن میں کچھ کو لٹکا بھی دیا گیا مگر ابھی کافی مقدمات ان عدالتوں کے پاس زیر سماعت تھے جو کہ ان کی پاور ختم ہونے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو ٹرانسفر کر دیئے گئے تھے۔ سیاسی جماعتوں کی رضا مندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں احساس ہے کہ دہشتگردی کو مکمل ختم کرنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور اس کام کا ایک بڑا اہم حصہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کا اسپیڈی ٹرائل بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں اور دوسری عام عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ ہونے میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور بہت سے ملزمان ضمانت پر بھی رہا ہو کر دوبارہ مجرمانہ کارروائیاں شروع کردیتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دینے اور عام عدالتوں کی مقدمات کو جلد نہ نبٹانے میں ناکامی ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم پر بہت بڑے سوال اٹھاتی ہے۔ جب تک انصاف کے نظام کو بہتر نہیں کیا جائے گا خصوصی عدالتیں بنانے کی ضرورت پیش آتی رہے گی۔ سیاسی جماعتوں نے یہ شرط رکھی ہے کہ حکومت انہیں مطمئن کرے کہ وہ کیا عدالتی اصلاحات لا رہی ہے کیونکہ ان کے بغیر جسٹس سسٹم اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکتا اور ہر حکومت کو خصوصی عدالتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پہلے بھی جب آئین اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کی گئیںتو تمام سیاسی جماعتوں اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز نے مکمل اتفاق رائے دکھایا تھا۔ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے بھی ان ترامیم کو ختم نہیں کیا تھا۔ اس طرح حکومت، فوج، پارلیمان، اعلیٰ عدلیہ اور تمام سیاسی جماعتوں نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر قومی مجرموں کے ساتھ آئینی ہاتھ سے نبٹنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور پھر بڑی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔

.
تازہ ترین